بلوچستان میں کرپشن کے حوالے سے انکشافات یا خبریں کوئی حیران کن بات نہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوٹ مار کی گئی اور اس میں برائے راست وہی لوگ ملوث رہے ہیں جن آفیسران کی نگرانی میں یہ منصوبہ بن رہے تھے ۔
تقریباً گزشتہ ایک صدی خصوصاً قیام پاکستان کے بعد سے بلوچستان میں ریلوے نظام کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ گزشتہ ستر سالوں میں چند ایک مسافر ٹرینیں چلائی گئیں جن سے لوگوں کو سفری سہولیات میسر آئیں۔
ورلڈ بینک کی اسٹیٹ آف واٹر سپلائی، سینیٹیشن اینڈ پاورٹی ان پاکستان کے نام سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقے شہری علاقوں کے مقابلے میں غریب تر اور تقریباً تمام سہولیات سے محروم ہیں۔
بلوچستان میں جعلی اور ملاوٹ شدہ خوردنی اشیاء کی فروخت کے حوالے سے کوئی روک تھام دیکھنے کو نہیں ملتا کیونکہ حکومتوں کی ترجیحات میں یہ کبھی شامل ہی نہیں رہا ہے جسے تاریخ کے کسی بھی دورمیں اچھی حکمرانی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
کوئٹہ شہر میں تجاوزات میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے، اکثر دکانداروں نے سڑک اور فٹ پاتھ پر قبضہ کررکھا ہے، ریڑھی والوں نے بھی ہمیشہ کیلئے اس کو دکان کا درجہ دے دیا ہے۔ اس بات سے کوئٹہ کے باسی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ غیرقانونی تارکین وطن یہاں کا رخ کرکے ریڑھی لے کر کاروبار شروع کرتے ہیں اور پھر اس مخصوص جگہ پر قابض ہوجاتے ہیں جہاں اس کی ریڑھی نما دکان بنی ہوئی ہے۔
بلوچستان کو مجموعی طور پر قلت آب کا سامنا ہے اکثر علاقوں اور شہروں میں پینے اور گھریلو استعمال کیلئے پانی دستیاب نہیں ہے تمام گزشتہ حکومتوں نے اس بنیادی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی اور زیادہ تر وقت اپنی حکومتوں کو بچانے پر صرف کیا، اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے زیادہ وسائل اور مراعات دیں۔
گزشتہ حکومت نے ریل کے ذریعے گوادر کی بند رگاہ کو جیکب آباد سے ملانے کااعلان کیاتھا۔ گوادر، خضدار، جیکب آباد ریلوے ٹریک بچھایا جاناتھا۔ ریلوے ٹریک کی تعمیرکب شروع ہوگی،اس کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا اور اس پر کتنی لاگت آئے گی، یہ تمام تفصیلات سابق وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے نہیں بتائیں تھیں جس پر ہم سابق وفاقی وزیر کے مشکور ہیں کیونکہ بلوچستان میں جب بھی بڑے منصوبوں کا اعلان کیاجاتا ہے توان کی تکمیل پر دہائیاں لگ جاتی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہاہے کہ بلوچستان کی سرزمین کسی کو بھی فروخت نہیں کرینگے،سرمایہ کاری کیلئے زمین لیز اور کرایہ پر دینگے، بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی وہ حکومت بلوچستان کرے گی ،بلوچستان میں سرمایہ کاری سمیت ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حکومت بلوچستان سے بات کی جائے ،وفاق سہولت کار ضرور ہے لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان کرے گی ،صوبے کی زمین کو محفوظ بناکر سرمایہ کاروں کو لاکر بیروزگاری کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی خوشحالی امن اور قانون کی عملداری میں مضمرہے، آئندہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ملکی سلامتی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔
ضلع چاغی شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، انتظامیہ کے مطابق خشک سالی سے اب تک 7 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں، تین ہزار خاندانوں کیلئے راشن 20 روز قبل بجھوایا گیا تھا جسے متاثرہ خاندانوں میں اب تک تقسیم نہیں کیا گیا جو گوداموں میں پڑا سڑرہا ہے۔