ایرانی صدر حسن روحانی کاکہنا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کو توڑینگے۔ اس سے قبل امریکی حکومتوں نے عراق،، شام، لیبیا کو تباہ کردیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو کوئی فوجی خطرات لاحق نہ ہوں۔
بلوچستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہر یا بڑی آبادی ہو جہاں پر عوام کو مناسب شہری سہولیات میسر ہوں۔ ایک نظر دوڑانے پر بلوچستان ایک وسیع وعریض کچھی آبادی نظر آتا ہے، یہاں مناسب شہری سہولیات دستیاب نہیں ۔
بلوچستان سے امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں پر بلوچستان سے امتیازی سلوک نہ برتا جارہا ہو۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے نصف پاکستان ہے اگر سمندری حدود کو شامل کریں تو یہ نصف سے بھی زیادہ ہے۔بلوچستان میں تقریباََ دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین موجود ہے اس میں 75لاکھ ایکڑ صرف کچھی اور سبی کا میدانی علاقہ ہے اتنے وسیع علاقے میں صرف پٹ فیڈر وہ واحد نہر ہے جو صرف چند لاکھ ایکڑ زمین آباد کرتی ہے۔
بلوچستان کی معدنی دولت صرف اور صرف بلوچستان کے عوام اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہونی چائیے ۔ یہ کسی غیر ملکی کمپنی کے لئے نہیں ہیں کسی کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہونی چائیے کہ وہ بلوچستان کی معدنی دولت کو لوٹ کر لے جائے ۔ ہمارے سامنے دو واضح مثالیں موجود ہیں۔
گزشتہ 70 سالوں کے دوران بلوچستان میں انسانی وسائل پر توجہ نہیں دی گئی جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ بلوچستان اس وقت سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ خطہ معاشی حب بن جائے گاجہاں انسانی زندگی میں ایک بہترین انقلاب برپا ہوگا ۔
بلوچستان کی گزشتہ صوبا ئی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں سالانہ بجٹ سے 2017۔18کے مالی سال میں محکمہ تعلیم کیلئے 46 ارب روپے رکھے جس میں 500پرائمری اسکولوں کو مڈل جبکہ پانچ سو مڈل کو ہائی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جس طرح بلوچستان پسماندگی اور محرومیوں کاشکار ہے اسی طرح کوئٹہ شہر دیگر دارالخلافوں کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے، کوئٹہ شہر میں وہ تمام مسائل موجود ہیں جو ملک کے باقی بڑے شہروں میں نہیں پائے جاتے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں روزگار فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا اسمگلنگ زون ہے جہاں سے صنعتوں اور تجارت کا صفایا سرکاری طور پر کیا گیا ہے تاکہ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع موجود نہ ہوں اور نہ ہی مزاحمتی معیشت کا وجود ہو۔
1997ء کے بعد دوسری بار بلوچستان کے اکثر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں، 1997 ء سے لیکر 2005 تک پورے بلوچستان میں خشک سالی رہی اور 2005ء کے آخری مہینوں میں خشک سالی کا خاتمہ ہوا۔
بلوچستان کے ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔ بلوچستان کے ہر دورکے حکمرانوں نے سرمایہ کاروں کو نہ صرف براہ راست مخاطب کیا بلکہ مشترکہ دوستوں کے ذریعے بھی ان کو یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان میں ان کا سرمایہ اور منافع دونوں محفوظ ر ہیں گے۔ حکومت ہر قیمت پر ان سرمایہ کاروں کی حفاظت کرے گی۔