گزشتہ 70 سالوں کے دوران بلوچستان میں انسانی وسائل پر توجہ نہیں دی گئی جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبوں میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ بلوچستان اس وقت سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ خطہ معاشی حب بن جائے گاجہاں انسانی زندگی میں ایک بہترین انقلاب برپا ہوگا ۔
بلوچستان کی گزشتہ صوبا ئی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں سالانہ بجٹ سے 2017۔18کے مالی سال میں محکمہ تعلیم کیلئے 46 ارب روپے رکھے جس میں 500پرائمری اسکولوں کو مڈل جبکہ پانچ سو مڈل کو ہائی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جس طرح بلوچستان پسماندگی اور محرومیوں کاشکار ہے اسی طرح کوئٹہ شہر دیگر دارالخلافوں کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے، کوئٹہ شہر میں وہ تمام مسائل موجود ہیں جو ملک کے باقی بڑے شہروں میں نہیں پائے جاتے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں روزگار فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا اسمگلنگ زون ہے جہاں سے صنعتوں اور تجارت کا صفایا سرکاری طور پر کیا گیا ہے تاکہ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع موجود نہ ہوں اور نہ ہی مزاحمتی معیشت کا وجود ہو۔
1997ء کے بعد دوسری بار بلوچستان کے اکثر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں، 1997 ء سے لیکر 2005 تک پورے بلوچستان میں خشک سالی رہی اور 2005ء کے آخری مہینوں میں خشک سالی کا خاتمہ ہوا۔
بلوچستان کے ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔ بلوچستان کے ہر دورکے حکمرانوں نے سرمایہ کاروں کو نہ صرف براہ راست مخاطب کیا بلکہ مشترکہ دوستوں کے ذریعے بھی ان کو یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان میں ان کا سرمایہ اور منافع دونوں محفوظ ر ہیں گے۔ حکومت ہر قیمت پر ان سرمایہ کاروں کی حفاظت کرے گی۔
گزشتہ کئی ماہ سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے جس کے دوران نہ صرف مقدمات درج ہوئے بلکہ عدالت میں کارروائی کے لئے بھی ملزمان پیش ہوئے اور عدالت آئے دن اس حوالے سے احکامات جاری کرتی رہتی ہے جن میں ملزمان کو عدالت میں پیش ہونے کے نوٹسز کے علاوہ گرفتاری کے احکامات بھی شامل ہیں۔
ڈی سی چاغی محمد قسیم کاکڑ کے مطابق بلوچستان کا ضلع چاغی شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آگیا ہے، قحط سے 7 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں، ڈی سی چاغی کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث زراعت متا ثر ہوکر رہ گئی ہے جبکہ مال مویشی بھی مرنے لگے ہیں، ڈی سی چاغی نے صوبائی حکومت کو امداد کے متعلق مراسلہ بھی بھیج دیا ہے۔
گزشتہ پندرہ سالوں سے سیندک پروجیکٹ کی صورت میں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ بلوچستان کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بلوچستا ن کو صرف ڈھائی فیصد کی رائلٹی پرٹرخا دیا گیا۔
بلوچستان کے لوگوں کی معیشت کادارومدار اسمگلنگ پر ہے، صنعتی اشیاء اسمگل ہوکر بلوچستان آتی ہیں جس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی اسمگلرز اور دکاندار ریاست کو کسی قسم کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لئے ریاست کی آمدنی بلوچستان میں منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔