بہت عرصہ بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے عوام سے رابطہ مہم شروع کردیا ہے اور سب سے بڑا عوامی مسئلہ ‘ قیمتوں میں اضافہ اور گرانی کو اٹھایا ہے۔ چونکہ سینکڑوں اشیاء کی قیمتیں پٹرول کی قیمت سے جڑی ہوئی ہیں اس لیے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
وزیراعلیٰ نے ایک بار پھر حکم صادر کیا ہے کہ گوادرمیں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کیاجائے ۔گوادر کو پاکستان میں شامل ہوئے تقریباً60سال مکمل ہونے والے ہیں ۔ ابتداء سے ہی پاکستان کے حکمرانوں کو گوادر اور اس کے عوامی مسائل سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔
بلوچستان کے عوام سے نفرت اور تنگ نظری کی ایک اور مثال سامنے آگئی۔ گزشتہ دنوں کچھی کینال کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات روک دی گئیں اور یہ منصوبہ بگٹی قبائلی علاقے تک پہنچا کر ختم کردیا گیا ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا ء اللہ خان زہری نے کارواٹ میں نصب 2ملین گیلن پانی روزانہ کی استعدادکے ڈی سلینیشن پلانٹ کی غیرفعالی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہوئے پلانٹ کی فعالی میں حائل مسائل کو فوری طورپر حل کرکے اسے فعال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وفاقی حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بلوچستان کو قومی اسمبلی کی دو اضافی نشستیں دی جائیں گی۔ شاید حکمران اسی کو بلوچستان کی دہائیوں کی احساس محرومی اور مایوسیوں کا مداوا سمجھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ کے اہم ترین رہنماؤں کا ایک اجلاس لندن میں ہوا جس میں وزیر اعظم خاقان عباسی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف بھی شریک تھے معتبر ذرائع کے مطابق یہ دونوں شخصیات خصوصی طورپر لندن کے اجلاس میں شریک ہوئے اور اس تجویز کے ساتھ کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے بر طرفی کے بعد مسلم لیگ کی صدارت بھی چھوڑ دیں ۔
روز اول سے بلوچستان میں نوکر شاہی مقامی اخبارات اورمیڈیا کو نا پسند کرتی رہی ہے اور اس کے برعکس کارپوریٹ سیکٹر کے اخبارات کی بھرپور حمایت کی ہے۔وجہ یہ ہے کہ بعض اخبارات نے آزادی صحافت اور آزادی رائے کو ترجیح دی اور کبھی بھی رہنماؤں اور حکمرانوں کی چاپلوسی نہیں کی اور عزت و احترام کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑا، لوگوں کی پگڑی نہیں اچھالی ‘ اور نہ ہی وہ اشتہارات قبول کیے جس میں کسی کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو ۔
پور ے وفاقی نظام میں صرف ڈپٹی چئیرمین سینٹ ہی بلوچستان کے نمائندے ہیں اس کے علاوہ پوری وفاقی انتظامی مشینری میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
وفاقی حکومت نے ایک بار پھر سندھک پروجیکٹ یعنی سونے اور تانبے کے ذخائر کو ایک سال کے لئے چینی کمپنی کے حوالے کردیا۔ یہ چینی کمپنی ایم سی سی کی مرضی ہے کہ سونا اور تانبے کو پہلے چین لے جائے اور بعد میں سونا اور تانبہ اور دوسری دھاتوں کو الگ کرے اور بعد میں اس کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرے ۔
پشین کے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صدر نے بالکل صحیح موقف اپنایا کہ پنجاب کی بالادستی کو کم کرنے کے لئے ایک متحدہ اور مضبوط پختون صوبے کی ضرورت ہے اور انہوں نے اپنا یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ ہے اس سے پہلے حکومتی کمیشن نے بھی اس کی سفارش کی تھی کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے ۔