گزشتہ ہفتہ دس دنوں کے دوران بلوچستان کے دارالخلافہ میں دہشت گردی کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے جس میں دو اعلیٰ ترین پولیس افسران کو شہادت نصیب ہوئی ۔ پہلا حملہ قلعہ عبداللہ کے ڈی پی او پر ہوا جہاں ایک خودکش حملہ کیا گیا ، اس میں ڈی پی او موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ۔
ماضی کی نواز حکومتوں کوکرپشن ‘ بد عنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت دو مرتبہ بر طرف کیا گیا تھا اوراس بار بھی قریب قریب ایسا ہی ہونے کا امکان ہے نو از شریف اور اس کے مصاجین بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس بار بھی نواز حکومت کو بر طرف کیاجائے کیونکہ نواز شریف استعفیٰ ہر گز نہیں دینگے تاکہ ان کو تیسری بار بھی سیاسی شہادت کا درجہ ملے ۔
متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تیاری مکمل کر لی ہے اور عنقریب اجلاس بلانے کی درخواست کسی وقت بھی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جائے گی ۔
جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جس میں وزیراعظم اور اسکے خاندان کے خلاف ’’ فرد جرم ‘‘ عائد کرتے ہوئے یہ سفارش کی گئی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنس دائر کیاجائے کیونکہ ان کے اثاثے ان کے ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔
زمینداروں اور کاشتکاروں نے کیر تھر کینال میں نہری پانی کی کمی کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ کیر تھر کینال میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ کیاجائے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کیر تھر کینال میں پانی کا بہاؤ صرف 700کیوسک ہے ۔ اس میں 2400کیوسک پانی ہونا چائیے ۔
موجودہ مسلم لیگی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی جارہی ہے اور تیزی سے نئے انتخابات کی طرف ملک رواں دواں ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی وفاقی حکومت نے کوئی ایک قابل ذکر معاشی منصوبہ یا میگا پرجیکٹ بلوچستان کو نہیں دیا۔
کشمیر سے متعلق دور رائے نہیں ہیں کہ اس کے حل کے بغیر پورے خطے میں امن کاقیام نا ممکن ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کا مقصد کشمیر کے مسئلے کو اجاگرکرنا اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیرہی کی وجہ سے پورے خطے میں دہائیوں سے کشیدگی جاری ہے ۔
بلوچستان میں ایک ہی دن میں دہشتگردی کے دو واقعات پیش آئے ان میں ایک واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا جہاں پر پیشہ ور دہشتگردوں نے بی این پی کے رہنماء ملک نوید دہوار اور ان کے سرکاری محافظ کو موقع پر ہی گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
وزیر اعظم سیکریٹریٹ سے ایک حکم نامہ جاری ہوا ہے جس میں متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کیں گئیں ہیں کہ 31 دسمبر سے افغان تارکین وطن اور افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائی جائے۔
معاشی فرنٹ پر دو بڑے واقعات نے پاکستانی معیشت پر دور اس اثرات چھوڑے ہیں۔ پہلے تو اسٹاک مارکیٹ میں صرف ایک دن میں 1900 پوائنٹس کی گراوٹ اور دوسری جانب روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابے میں کمی۔