وزیراعظم پاکستان نے کثیر الملکی بحری مشقوں کا افتتاح کیا، یہ جنگی اور بحری مشقیں بحر ہند میں پاکستان کی سربراہی میں ہورہی ہیں جن کا واحد مقصد ہر صورت میں سمندری راستوں کو محفوظ بنانا اور آزاد تجارت کی راہ میں تمام خطرات اور خدشات کا نہ صرف سامنا کرنا ہے بلکہ ان کو ممکنہ حد تک دور بھی کرنا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل سی این این نے گزشتہ دنوں ایک وڈیو چلائی جس میں کوئٹہ شہر کے اندر جعلی ادویات کے کاروبار کو دکھایا گیا جہاں کام کرنے والے ملازمین خوشی خوشی پاؤڈر کیپسول میں بھر رہے ہیں اور پھر یہ پاؤڈر سے بھرے جعلی ادویات کو دکانوں کو سپلائی کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے خاندان کے تین شوگر ملوں کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دیا۔ یہ شوگر ملز غیر قانونی تھے اور عوام کو دھوکہ دیا گیا تھا کہ یہاں پر بجلی گھر بنایا جارہا ہے اور یہاں سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں یہ ثابت ہوا کہ نواز شریف کے خاندان کے طاقتور لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور بجلی گھر کے بجائے شوگر مل لگائے جو کئی سالوں سے دولت لوٹ رہے تھے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اس کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی، بے گھر افراد کی دوبارہ آبادکاری اور مردم شماری کے التواء کی خاطر تقریباً تمام قابل ذکر پارٹیاں متحدہ جدوجہد کا پروگرام بنارہی ہیں۔ اس کا مقصد حکومت کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ بلوچستان میں مردم شماری کو اس وقت تک ملتوی کردے جب تک تمام غیر قانونی تارکین وطن کو بلوچستان سے نہیں نکالا جاتا
سالوں کی محنت کے بعد فاٹا اصلاحات تیار کی گئیں، اس کی حتمی رپورٹ وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی گئی مگر آخری وقت میں اس کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔۔۔؟ابھی تک وفاقی حکومت یا کسی وفاقی وزیر نے اس کی وجوہات نہیں بتائیں۔ البتہ فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی نے اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ اے این پی کے رہنما ء نے فاٹا اصلاحات کے نفاذ کے لیے 12مارچ کی ڈیڈ لائن بھی دے دی
آج کل بعض لوگ شدت کے ساتھ مردم شماری کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سندھ کی 43فیصد آبادی نادرا کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے اور بلوچستان میں آبادی کا 57فیصد حصہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ یعنی بلوچستان کی آبادی کا صرف 43فیصد حصہ نادرا کے پاس رجسٹرڈ ہے اور اکثریتی آبادی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ بلوچستان کو گزشتہ 14سالوں سے غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے۔ بہت ہی بڑی آبادی کو طاقت کے زور پر اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ملک اور قوم کے رہنماؤں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونے والی تمام وفاقی اکائیاں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ’’آزاد اور خودمختار ‘‘ ہوں گے۔ ان کے معاملات میں وفاقی حکومت مداخلت نہیں کرے گی لیکن ملک غلام محمد نے اقتدار پر شب خون مارا اور جمہوریت اور وفاقیت کی بساط لپیٹ کر ملک پر نوکر شاہی کا راج قائم کردیا جو ابھی تک خوفناک صورت میں موجود ہے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے مسئلے کو اولیت دی۔اس سے قبل سابقہ امریکی حکومتوں نے عراق‘ شام ‘ لیبیا کو تباہ کردیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو کوئی فوجی خطرات لاحق نہ ہوں ۔ ترکی تو ناٹو کا رکن ہے اور مغرب کا آزمودہ اتحادی ہے اور اچھے سپاہیوں کے زمرے میں آتاہے اس لیے اس کو خطرات لاحق نہیں ہیں البتہ ایران کا تعلق مختلف فریق سے ہے وہ امریکی سربراہی اور احکامات کو تسلیم نہیں کرتا۔
بلوچستان ملک کا وہ بدنصیب صوبہ ہے جہاں پر قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں، ہر شعبہ زندگی میں لاقانونیت عام ہے۔ سب سے زیادہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، ان کا حکم قانون ہے اس لئے پورے صوبے میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ لوگ خصوصاً تجارت پیشہ لوگ اس کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں
وفاقی حکومت نے فاٹا میں اصلاحات لانے اور سفارشات طلب کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا، اس نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اور رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کردی ہے اب کابینہ کے اجلاس میں اس کی حتمی منظوری متوقع ہے۔ ان سفارشات میں فاٹا کے تمام علاقوں کو کے پی کے میں ضم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔