بھارت کا جنگی جنون آج کل سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ آئے دن لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری جاری ہے جس کا واحد مقصد پاکستان پر فوجی دباؤ بر قرار رکھناہے اور دنیا کی توجہ کشمیریوں کے زبردست احتجاج اور آزادی کے مطالبہ سے ہٹانا ہے اور دنیا پر اس وقت یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ علاقے کے امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں ۔ لہذا دنیا کشمیر کے مسئلے کو بھول جائے ، لاکھوں کشمیریوں کے بھرپور احتجاج پر توجہ نہ دے
حکومت اور خصوصی طورپر مقامی انتظامیہ عوامی مسائل سے لا تعلق نظر آتے ہیں ، ان کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ گزشتہ دنوں معذور افراد نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر مظاہرہ کیا اور ٹریفک کو بند کردیا جس کی وجہ سے دن بھر کاروبار زندگی کوئٹہ شہر میں جزوی طورپر مفلوج رہا۔ وجہ یہ بنی کہ کوئٹہ کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام تھا اور لوگوں کے ہزاروں کام کے گھنٹے ضائع ہوئے جس کی براہ راست ذمہ دار صوبائی حکومت اور بالخصوص مقامی انتظامیہ ہے۔
ترک صدر اردگان کی پاکستان آمد سے چند روز قبل وفاقی حکومت نے ترک اساتذہ کو ملک بدری کا حکم تھما دیا ۔شاید ترک صدر کی آمد سے قبل طیب اردگان کو یہ تحفہ دینا مقصود تھا کہ ہم بھی ترک اساتذہ کے خلاف کارروائی کررہے ہیں ۔ حکومت کا یہ فیصلہ انتہائی افسوسناک اور یہ تعلیم دشمنی کے مترادف ہے ۔ ترک اساتذہ کے زیر تعلیم تقریباً 12 ہزاربچے ہیں ترک اسکول پاکستان میں اپنی معیاری تعلیم کے بارے میں اچھی ساکھ رکھتے ہیں
بھارت کے رویے سے قیاس کیاجارہا ہے کہ وہ پورے خطے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے ۔ گزشتہ چار ماہ سے کشمیر کی صورت حال میں جو انقلابی تبدیلی آئی ہے اور کشمیریوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اس پر بھارت اور بھارتی حکمران چراغ پا ہیں کہ کشمیر کا مقبوضہ علاقہ ا ن کے ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔
جب سے وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس روانہ کرنا چاہتاہے اس دن سے پشتون سیاسی قیادت نے حکومت پر دباؤڈالنا شروع کردیاہے کہ ان کو اتنی جلدی واپس نہ بھیجیں۔ افغان تارکین وطن کانفرنس میں پشتون رہنماؤں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان افغانوں کو بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو مزید پانچ سال پاکستان میں رہنے دیا جائے جبکہ آج پشتون قوم پرست پیچھے ہیں اور مولانا حضرات فضل الرحمان اور سراج الحق جو دو بڑی مذہبی پارٹیوں کے سربراہ بھی ہیں آگے آئے ہیں اور افغان غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے میں پیش پیش ہیں ۔
توقع کے مطابق گوادر پورٹ کاافتتاح ہوگیا ۔ چین سے ٹرکوں میں سامان گوادر لایاگیا اور اس کو گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی ایشیاء اور افریقی ممالک کو روانہ کر دیا گیا۔ اس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان نواز شریف ‘ آرمی چیف اور درجن بھر ممالک کے سفراء کی موجودگی میں ہوا اس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے مہمانوں کو خصوصی طورپر دعوت دی گئی تھی ۔ اس میں بڑی تعداد میں اخبار نویس موجود تھے ۔ اس موقع پر چین کے سفیر نے کہا کہ تجارتی راہداری ایک ہے مگر اس میں کئی راستے استعمال ہورہے ہیں
کوئٹہ مسائل کا شہر بنا ہوا ہے اور روز بروز اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت کئی دہائیوں سے اس کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بنیادی طورپر اس بڑے شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔
کوئٹہ مسائل کا شہر بنا ہوا ہے اور روز بروز اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت کئی دہائیوں سے اس کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں
گوادر مستقبل کا عظیم الشان بندر گاہ بن رہا ہے ۔ غالباً یہ خطے کی سب سے بڑی بندر گاہ ہوگی جس سے پورے خطے کو فائدہ حاصل ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے پاس وہ وژن نہیں ہے جو وہ مستقبل کے گوادر کو ابھی سے دیکھ سکیں ۔ گوادر اتنی بڑی بندر گاہ ہوگی جو موجود ہ چاہ بہار کی بندر گاہ کو ایک ذیلی پورٹ کے طورپر استعمال کرے گی ۔
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت نے دنیا بھر میں ایک غیر یقینی صورت حال پیدا کردی ہے وجہ یہ ہے کہ ایک نامعلوم سیٹھ ارب پتی اچانک دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ملک کا صدر بن گیا ۔