پی پی پی کے ہائی کمان نے اپنے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کو تاکید کی ہے کہ حکومت کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی جائے اور ن لیگ حکومت کے گرد گھیرا زیادہ تنگ کیا جائے۔ حزب مخالف کی جماعتوں سے تعاون کو بڑھایا جائے تاکہ حکومت کے خلاف ایک موثر محاذ قائم ہو ۔یہ سب باتیں اس وقت سامنے آئیں جب بے لگام وزیر داخلہ نے اپنے ذاتی عناد کی بنیاد پر پی پی پی کے رہنماؤں پر الزامات لگائے اور ایان علی کے اسکینڈل کو پی پی پی کے رہنماؤں سے جوڑنے کی کوشش کی
قوم آج جشن آزادی پورے زور وشور سے منا رہی ہے اور اس بات کا دوبارہ عہد کررہی ہے کہ عزیز وطن کے چپے چپے کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے اس بار قوم کو شدید مسائل کا سامنا ہے ان میں سیکورٹی کی صورت حال کو اولیت حاصل ہے ۔سیکورٹی اداروں اور فوجی سربراہوں نے صاف صاف طورپر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کردی ہے
افغان مہاجرین کے ایک وفد نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے ملاقات کی اور یہ الزام لگایا کہ ان کو ہراساں کیا جارہا ہے تحریک انصاف کے سربراہ نے اس بات کی تصدیق کی یا نہیں بلکہ انہوں نے اس کی مذمت کر ڈالی۔ اگر واقعی افغان مہاجرین کو ہراساں کیا جارہا ہے تو یہ غیرایک انسانی فعل ہے اور ذی شعور آدمی اس کی تعریف نہیں مذمت ہی کرے گا
کوئٹہ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد حکومت اور حکومتی اداروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ کارروائی بلوچستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک میں کارروائی ہوگی، دہشت گردوں کے سلیپر سیلSleeper Cellsتقریباً ہر جگہ موجود ہیں فاٹا کے علاقے سے نکلنے کے بعد ان کی زیادہ توجہ کا مرکز کراچی اور بلوچستان رہا ہے لوگوں کا اندازہ ہے کہ یہ سیل افغانوں کے علاقوں میں خصوصاً وہ افغان جو گزشتہ سالوں غیر قانونی طورپر او ر معاشی وجوہات کی بناء پر بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان آئے ہیں ۔
گزشتہ67سالوں میں پاکستان ریلوے کی کارکردگی بلوچستان میں مایوس کن رہی، اتنے بڑے اور طویل عرصے میں سفری سہولیات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا البتہ تباہی بمباری زیادہ ہوئی۔ ان سالوں میں ریلوے لائن کی نہ مرمت ہوئی اور نہ ہی ریلوے کے املاک اور اثاثوں کو تحفظ دیا گیا بلکہ پورے ریلوے نظام کو بلوچستان بھر میں نظر انداز کیا گیا۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ میں ستر سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ،اتنے ہی زخمی ہوئے ’ بیس سے زائد زخمیوں کی حالت نازک ہے ۔خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ طالبان کے ایک گروہ نے کوئٹہ میں خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ وکلاء کو کیوں دہشت گردی کا نشایا گیا ۔ عوامی اور انسانی حقوق کے دفاع اور ان کے حقوق کی سربلندی میں وکلاء پیش پیش رہے ہیں اس لئے ان کا سماج بہت زیادہ احترام کرتا ہے
کوئٹہ شہر کو ایک بار پھر خون سے نہلا دیا گیا ،معروف قانون داں بلال انور کاسی پرگھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں وہ جان بحق ہوگئے ۔ وکلاء اور دوسرے افراد نے ان کی لاش کو سول اسپتال کوئٹہ پہنچایا تاکہ لاش کی پوسٹ مارٹم کی جائے مگر سول اسپتال کے شعبہ حادثات کے دروازے پر ہی بہت زبردست دھماکہ ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا اس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 70افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور تقریباً سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے شدید قسم کی خشک سالی کا سامنا ہے ۔ اس صورتحال پر صوبائی اسمبلی نے ایک متفقہ قرار داد پاس کی ہے اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دیاجائے۔ دراصل معاملہ وہاں سے شروع ہوا جب پرنس احمد علی نے ایک قرار داد پیش کی کہ لسبیلہ ضلع کو آفت زدہ قرار دیا جائے
گزشتہ دنوں بعض میونسپل کونسلرز‘ چئیرمین حضرات نے اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کیا اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کیا خصوصاً صوبے اور مقامی کونسلوں کے درمیان اختیارات کے لیے۔ افسوس کی بات ہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں خصوصاً وہ جماعتیں جو اقتدار میں ہوتی ہیں وہی مقامی کونسلوں کو اختیارات کی منتقلی کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں
قیام پاکستان سے لے کر آج تک سریاب کے مکینوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے ۔ کوئٹہ میں جو بھی ترقی ہوئی شہر کے مخصوص علاقوں تک محدود رکھی گئی اور سریاب کے لاکھوں مکینوں کو ان تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا ۔ آج تک اس رویے میں تبدیلی کے آثار نہیں ہیں لاکھوں لوگوں کو کوئٹہ شہر کے اندر رہتے ہوئے بھی انسان نہیں سمجھا جارہا اس لئے وہ تمام بنیادی سہولیات سے آج بھی محروم ہیں۔ بنیادی سہولیات میں پانی کی فراہمی جو جراثیم سے پاک ہو