سلالہ چیک پوسٹ پر ہوائی حملے کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدگی کی جانب بڑھتے جارہے ہیں حالیہ ہفتوں میں یہ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے غالباً اسی وجہ سے وزیراعظم نے امریکا میں جوہری سیکورٹی کانفرنس میں خودشرکت نہیں کی
گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی اور وفاقی حکومت کی توجہ بلوچستان میں سیم اور تھور سے ہٹ گیا ہے حکمرانوں کو ذاتی مفادات کے تحفظ سے فرصت نہیں اور نہ ہی بلوچستان کے نوکر شاہی کو عوامی مسائل اور مشکلات سے دلچسپی ہے ۔ وہ صرف حکمرانوں کی چاپلوسی میں ملوث پائے جاتے ہیں سب کے سب نہیں
رات گئے تورخم کی سرحد کو غیر قانونی آمد و رفت کے لئے بند کردیا گیاا ور اب صرف پاسپورٹ ،ویزا اور قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ دوسری طرف یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکام نے یہ احکامات جاری کردئیے ہیں کہ غیر قانونی راستے یا چوری چھپے راستے سے داخل ہونے والے غیر ملکیوں کو گولی ماردی جائے گی۔
گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بجٹ کے سلسلے میں وفاقی حکومت کے ایک اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور وفاقی حکومت خصوصاً وزیر منصوبہ بندی اور ترقیاتی کے طرز عمل پر احتجاج کیا ۔ اب اسکا اثر یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت یا منصوبہ بندی کمیشن
ہر آنے والے سیاسی یا فوجی حکومت نے بلوچستان کو بہ حیثیت وفاقی اکائی کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کو پنجاب کا ایک تحصیل سمجھ لیا اور اس لحاظ سے وفاقی حکمرانوں اور نوکر شاہی نے سلوک کیا۔ ظاہر ہے اتنا بڑا بلوچستان جو تمام صوبوں سے بڑا ہے
وزیرداخلہ ہمیشہ کی طرح نیوز بریکر کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی پریس کانفرنسز میں سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور حقائق پر ہمیشہ پر دہ ڈالتے ہیں ۔ یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ غیر ملکی افراد اس ملک میں صرف اور صرف
صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے عوام کے موقف کو غلط طورپر پیش کیا ہے یہ حکومت کاکا م ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور افغان مہاجرین کو بین الاقوامی برداری کے تعاون سے واپس اپنے وطن عزت واحترام سے روانہ کرے ۔ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کے اندر مزید قیام کی مدت میں توسیع نہیں کی گئی
وزیر داخلہ کو اس وقت زبردست شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب طالبان کی شوریٰ نے یہ تصدیق کی کہ ملا اختر منصور احمد وال بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ۔ا س سے قبل کی ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے شک کا اظہار کیا تھا
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر نے سابق سیکرٹری صوبائی اسمبلی کو معطل کردیا ان کے خلاف سنگین الزامات بھی لگائے گئے ان میں کرپشن ، اقرباء پروری ، اختیارات کا غلط استعمال اور سب سے بڑھ کر مردم آزاری شامل ہے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ
بلوچستان اسمبلی دراصل اقتدار کا سرچشمہ ہے یہی قانون ساز ادارہ ہے اور بلوچستان کے مفادات کا سب سے بڑا نگہبان ہے اگر صوبائی اسمبلی یہ کام سرانجام نہیں دیتی اور اراکین اسمبلی کے ذاتی اور گروہی مفادات کی حفاظت کرتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔