عوام کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کیلئے میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے جو عوام تک تمام خبروں کو پہنچاتی ہے مگر میڈیا کی کچھ غلطیوں کے باعث عوام آج بھی پرنٹ خاص کر الیکٹرونک میڈیا سے شدید مایوس نظر آتی ہے کیونکہ ان کے بنیادی مسائل کو بہتر انداز میں کوریج نہیں دی جاتی بلکہ اس سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی تقاریر اور پریس کانفرنسز کو گھنٹوں تک لائیونشریات میں دکھا ئی جاتی ہے
کراچی پر عرصہ دراز سے ایک ہی جماعت کاکنٹرول رہا ہے اور اس کا ووٹ بینک بھی محفوظ رہا ہے‘ 2001ء کے بعد یہی جماعت یعنی متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف وفاق بلکہ سندھ میں بھی راج کرتی رہی تمام محکمہ اُن کے پاس رہے اوریہ ایک منظم تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی‘ اس سے قبل شاید ہی متحدہ قومی موومنٹ اتنی مضبوط رہی ہو‘ پرویز مشرف کے دور حکومت میں متحدہ قومی موومنٹ کراچی کا اکلوتا وارث بن گیا
گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی بد امنی کی لپیٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت زبوں حالی سے دوچار رہی ،بد قسمتی سے کئی سالوں سے کراچی میں سیکورٹی آپریشن جاری ہے اور اس کے نتائج اب کہیں جاکے نظر سامنے آنا شروع ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی
افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا اس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی تھی اور اس وقت پی پی پی کی حکومت نے نئے افغان حکومت جس کی سربراہی سردار داؤد کررہے تھے کی مخالفت کی تھی بلکہ اس کے خلاف زبردست میڈیا جنگ شروع کی تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو سرحدی علاقوں میں جا کر افغانستان کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہے
ملک کی تاریخ سیاسی بحرانوں سے ہمیشہ دوچار رہی ہے‘ اندرونی یا بیرونی معاملات دونوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاست اور معیشت تنزلی کا شکار رہی ہے‘ اصل محرکات سیاسی ہی ہوتے ہیں جب تک سیاسی حوالے سے اندرونی طور پر مضبوط حکومت نہیں ہوتی تو اس کے اثرات جمہوریت پر برائے راست پڑتے ہیں جس کی تاریخ ہمارے یہاں واضح ہے‘ ملک میں بیرونی مداخلت کا معاملہ معمولی نہیں
آج کل ہمارا ملک مختلف بحرانوں سے گزر رہاہے قومی معیشت کا حال بہت خراب ہے ۔ ملک 21000ارب روپے کامقروض ہو چکا ہے ۔ پوری بجٹ قرضوں کی ادائیگی اور وفاقی اخراجات پر خرچ ہوتی ہے ۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ معاشی معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آتے، ملک پر تاجر اور صنعت کار حضرات حکمران ہیں جو صرف اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کی حفاظت کررہے ہیں اور ان کو عوام الناس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ملک میں غربت میں اضافہ ہورہا ہے
سالوں گزر گئے کراچی میں سیکورٹی آپریشن جاری ہے ۔ البتہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے مگر دہشت گردی کے واقعات کے خطرات ہنوز باقی ہیں کیونکہ دہشت گرد اور طالبان ابھی تک خاموشی سے موجود ہیں کب کارروائی کریں ، کہاں کریں ، کس کو ٹارگٹ بنائیں، اس کی وجہ سے سیکورٹی کی صورت حال مکمل طورپر یقینی نہیں ہے تاہم آئے دن کے سیاسی ہڑتالوں سے جان تقریباً چھوٹ گئی ہے ۔
عمران خان کے علاوہ بہت سی دیگر اہم شخصیات نے یہ اشارے دئیے ہیں کہ ملک کے لئے صدارتی نظام حکومت بہتر ہے یہ تصور فوجی طالع آزماؤں کے لئے تو مناسب ہے کہ جس کی وجہ سے اقتدار کا سرچشمہ صرف شخص واحد ہوتا ہے ۔ اس کو بادشاہ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اکثر ایسے لوگ من مانی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ان میں سرفہرست ایوب خان ، یحییٰ خان اور بعد میں جنرل ضیاء الحق تھے۔
بلوچستان کے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ کوئٹہ کو ملک کا ایک مثالی شہر بنایا جائے گا۔ شہر کا ہر باشندہ اس میں کردار اد اکرے تاکہ شہر صاف ستھرا رہے ۔ بیماریوں اور آلودگی سے پاک رہے ۔ کوئٹہ ایک صحت افزا مقام تھااور اب دوبارہ اسکے وقار کو بحال کیا جائے تاکہ یہ ملک کا سب سے کم خرچ صحت افزا مقام رہے ۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ نوجوان ڈاکٹروں نے اپنے احتجاج کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان وزراء کی ایک کمیٹی سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد کیا گیا ۔ ڈاکٹروں کا بنیادی مطالبہ تنخواہوں میں اضافے کا تھا ۔ہر ذی شعور شخص ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے مگر ان کو ہڑتال کرنے اور ہنگامے آرائی کا حق نہیں دیتا ۔ یہ مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا اگر پڑھے لکھے ڈاکٹر اور مسیحا مہذب طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے اور عوام الناس حکومت کومجبور کرتے کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لہذا ان کو تسلیم کیا جائے ۔