متحدہ آج کل زیادہ مشکلات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ایک طرف مقتدرہ کے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں دوسری طرف الطاف سے ناراض لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں اندازہ ہے کہ بڑی تعداد میں اہم ترین رہنما ایم کیو ایم کوچھوڑ جائینگے اس صورتحال سے متحدہ کی پریشانیوں میں زیادہ اضافہ ہوگیاہے ۔ رضا ہارون کا متحدہ سے الگ ہونا ایک بڑی بات ہے اور اس کی سیاسی اہمیت زیادہ ہے جس مدلل طریقے سے رضا ہارون نے اپنی باتیں رکھیں اور متحدہ کے لیڈر شپ کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا اس میں وزن زیادہ ہے
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد حکومت آئی جی سندھ کو تبدیل کردیا گیا، اس کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات تھے جن میں کرپشن اور رشوت ستانی سرفہرست تھے ان کی جگہ ایک نئے آئی جی کو تعینات کیا گیا ہے۔ سپاہی
سپریم کورٹ نے سندھ پولیس میں وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا ہے ، اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ سندھ پولیس میں وسیع پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے جس میں اعلیٰ ترین افسران بلکہ سندھ پولیس کے سربراہ بھی ملوث ہیں۔ سپریم کورٹ نے پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کردی اور نیب کو حکم دیا کہ وہ اس کی تحقیقات کرے اور ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ وزیر اعلیٰ نے بلوچستان میں مقامی اخبارات کی ترقی کے لئے اپنے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو ان کے مسائل جلد سے جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ نظر انداز صوبہ ہے۔ وفاق میں اس کی کوئی بات نہیں سنتا، ہمارے نمائندے وفاقی پارلیمان میں جو کچھ کہتے ہیں وہ میڈیا کی زینت نہیں بنتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمان میں بلوچستان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
سعودی عرب میں 24ممالک کی مشترکہ جنگی مشقیں اختتام پذیر ہوگئیں جس کو دیکھنے21ممالک کے سربراہ وہاں گئے ان میں وزیراعظم پاکستان بھی شامل تھے جو پاکستانی فوج کے سربراہ کے ساتھ وہ جنگی مشقیں دیکھنے گئے تھے ظاہر ہے کہ مقصد جنگی مشقیں دیکھنا نہیں تھا بلکہ آپس میں صلح اور مشورے بھی کرناتھا ۔ معلوم ہوتا ہے ہے کہ صلح و مشورے مکمل ہوگئے کسی طرف سے اختلافی بیان سامنے نہیں آیا ہے یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سب لوگ متفق ہوگئے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہے ۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ دو تین دنوں میں بلو چستان میں مزید بارشیں ہونگی جس سے سیلابی صورتحال بننے کے امکانات ہیں لہذا عوام اپنے بچاؤ کے لیے انتظامات کریں یعنی خود کریں حکومت سے توقعات نہ رکھیں۔ فارسی کا مشہورمحاورہ ہے’’ آسمان سے بلا گرتی ہے تو خانہ انوری پر‘‘ جو بلوچستان پر صادق آتی ہے کیونکہ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں 10قدرتی آفات نے بلوچستان میں تبائی مچائی ہر چیز تباہ و برباد ہوگیا۔ لوگوں کے نقصانات کی تلافی کبھی نہیں ہوئی کیونکہ حکومت نے بلوچستان کو کبھی اس ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔ اگر تسلیم کیا ہوتا تو اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا۔
وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے گوادر سے متعلق اہم اعلانات کئے ہیں اور بلوچستان کے عوام کو سرکاری طور پر یہ خوش خبری سنائی ہے کہ گوادر بلوچستان ہی حصہ رہے گا اور مقامی افراد کے جائز اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے قوانین بنائے جائیں گے۔ قوم پرستوں کی طرف سے یہ مطالبہ سرفہرست تھا کہ دبئی اور دوسرے ممالک کی طرح بھی قانون بنائے جائیں تاکہ باہرسے آنے والوں کو ووٹ کا حق نہ ہو اور نہ ہی ان کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ قومی شناختی کارڈ پر مستقل سکونت کے خانے میں گوادر درج کریں۔
ون یونٹ کے ٹوٹنے اور تاریخی صوبوں کی 35سال بحالی کے بعد مقتدرہ کا صدارتی نظام سے عشق اور لگاؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا اور وفاقی پارلیمانی نظام حکومت سے نفرت کا اظہاربکثرت ہوتا رہتا ہے اکثر اوقات مقتدرہ کے حامی اور پروردہ لوگ اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کیا جائے دوسرے الفاظ میں وہ آمریت اور فرد واحد کی حکمرانی کے حامی اور جمہوریت کے مخالف اور دشمن ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عوام الناس کسی نہ کسی طریقے یا شکل میں فیصلہ سازی میں شامل ہوں۔
سندھ رینجرز کے مطالبات میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مطالبات اتنے دور تک جاچکے ہیں ایسا لگتا ہے کہ سندھ پولیس کا عنقریب خاتمہ ہونے والا ہے۔ آئے دن پولیس افسران کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کے اصلاح احوال کا کوئی کام نہیں ہورہا، پاکستان ایک وفاقی ملک ہے۔ صوبائی حکومتیں وفاق کے ماتحت حکومتیں نہیں ہیں۔ پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے آزاد اور خودمختار حکومتیں ہیں۔ صوبوں کی اپنی قانون ساز اسمبلی اور عدالت عالیہ موجود ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے ریلویز نے بلوچستان میں قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں کی ہے اور نہ ہی سفری سہولیات کو بہتر بنایا ہے۔ البتہ گزشتہ ادوار میں کچھ ٹرینیں ضرور چلائی گئیں تھیں حالیہ حکومتوں نے ان کو بند کردیا ہے۔ بعض علاقوں، خصوصاً دور دراز علاقوں میں ریلوے کی جائیداد کو لاوارث چھوڑدیا گیا بلکہ بعض ریلوے اسٹیشن پر چوکیدار تک نہیں ہیں۔ وجہ حکام کی بلوچستان میں عدم دلچسپی ہے۔