آسمان سے بلا گرتی ہے تو خانہ انوری پر۔ یہ فارسی کا مشہورمحاورہ ہے جو بلوچستان پر صادق آتی ہے کہ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں 10قدرتی آفات نے بلوچستان میں تبائی مچائی ہر چیز تباہ و برباد ہوگیا۔ لوگوں کے نقصانات کی تلافی کبھی نہیں ہوئی کیونکہ حکومت نے بلوچستان کو کبھی اس ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔ اگر تسلیم کیا ہوتا تو اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جاتا۔ آج کل طوفان اور بارشوں نے پورے بلوچستان، بلکہ ایرانی بلوچستان کو بھی اپنے نرغے میں لے رکھا ہے۔
مظاہرہ کرنا اور احتجاج کرنا لوگوں کے قانونی حقوق میں شامل ہے۔ پرامن احتجاج، مظاہروں، جلسے اور جلوس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ عام اور مہذب دنیا میں اس کو رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش میں بھی احتجاج اور مظاہروں کو انسانوں کو اذیت پہنچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مظاہرے یا احتجاج کا مطلب توڑ پھوڑ ،جو اختلاف کرے اس کی پٹائی احتجاج اور مظاہرے کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔
توقع کے مطابق الطاف حسین سے ناراض ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اپنا ایک الگ دھڑا بنا لیا۔ اس کی سرپرستی انیس قائم خانی اور مصفطیٰ کمال کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی پارٹی کا نام نہیں رکھا یا اخبار نویسوں کو نہیں بتایا بہر حال انہوں نے متحدہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس سے قبل 1992ء کی آپریشن میں ایک اور گروہ الگ ہوا اور آفاق احمد کی سربراہی میں قائم ہوا تھا۔ دونوں گروہوں میں سالوں تک خونی جڑپیں ہوئیں تھی۔ بہر حال موجودہ اختلافات زیادہ سنگین اور موثر معلوم ہوتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ الطاف سے ناراض متحدہ کے تمام رہنماء جلد یا بدیر متحدہ سے علیحدگی اختیار کرلیں گے۔
سندھ اور بلوچستان میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکمران اور سرکاری اہلکار صحت و صفائی کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، شاذ و نادر ہی کوئی گاڑی کچرا اٹھاتی نظر آتی ہے یا صفائی کا محکمہ اور اس کے اہلکار کسی سڑک پر صفائی کرتے نظر آتے ہیں۔ صفائی کا عملہ ان دونوں صوبوں میں غائب ہے کراچی اور کوئٹہ تباہی کے مناظر پیش کررہے ہیں۔ ہر جگہ، ہر موڑ اور ہر محلے میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں بلکہ ان ڈھیروں نے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔
سندھ اور پنجاب میں ٹرانسپورٹرز حضرات نے بسوں کے کرایوں میں تھوڑی کمی کا اعلان کیا ہے جو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ تاہم یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کرایوں میں کچھ تو کمی آئی ہے مگر بلوچستان میں جہاں پر ایرانی پیٹرول وافر مقدار میں اور زیادہ سستی قیمت پر دستیاب ہے ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ انتظامیہ بھی خواب خرگوش میں ہے۔ ان کو یہ ضرور معلوم ہے کہ حکومت پاکستان نے پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے شدید احتجاج اور تحفظات کے بعد مردم شماری غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔ سندھ کی حکومت نے باقاعدہ ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی جس میں متفقہ طور پر مردم شماری ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا بلکہ ساتھ یہ مطالبہ بھی تھا کہ صوبوں کو مناسب اور برابر نمائندگی دی جائے تاکہ آئندہ مردم شمار شفاف ہو اور پورے پاکستان کے عوام کو قابل قبول ہو۔
ایران میں پارلیمان کے انتخابات مکمل ہوگئے ,ساتھ ہی کونسل کے انتخابات ہوئے جو آئندہ کارہبر اعلیٰ منتخب کرے گا ۔ایران کے انتخابات کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور رائے عامہ نے صدر روحانی کے فیصلوں کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس بات کا مکمل اشارہ دے دیا ہے کہ ایران اپنی تنہائی ختم کرنا چاہتا ہے اور دنیا سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اب تک ایران کو انقلابی ایران تصورکیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی اصلاح پسند حکومتیں اور صدور صاحبان اس انقلابی پالیسی کو تبدیل نہ کرسکے گو کہ انہوں نے سرتوڑ کوششیں کیں اور ناکام رہے۔
پہلے تو بلوچستان میں بجلی نہیں ہے اور ہے تو صرف محدود علاقوں تک۔ حکومت نے 67 سال گزرنے کے بعد بھی پورے صوبے میں ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں کیں۔ ابھی بھی مکران، رخشان، وسطی جنوبی اورشمالی بلوچستان کے علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ وہاں پر ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں ہیں تو لوگوں کو بجلی کس طرح ملے گی۔ ماہرین نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ بجلی کے نظام کے بجائے شمسی توانائی پہ توجہ دی جائے۔
پسنی فش ہاربر آج کل دوبارہ بحالی کے دور سے گزررہا ہے۔ یہ فش ہاربر جنرل ضیاء دور حکومت میں بین الاقوامی امداد سے تعمیر ہوا تھا۔ اس کا مقصد مچھلی کی صنعت کو ترقی دینا اور علاقے میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنا تھا تاکہ علاقہ زیادہ خوشحال ہو اور پسنی کے قرب و جوار میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔ سرمایہ کاری بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے کی تھی اور اس کو تعمیر حکومت بلوچستان نے کیا تھا۔ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے چیئرمین ایک سابق سرکاری افسر تھے جو کئی دہائیوں تک سیکریٹری خزانہ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات رہے۔
بلوچوں کو عام طور پر یہ جائز شکایت رہی ہے کہ ان کے جائز مفادات کا وفاق پاکستان میں خاص خیال نہیں رکھا جارہا ہے یا دوسرے الفاظ میں ایک وفاقی اکائی ہونے کے باوجود ان کے مفادات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وجہ تو وفاقی یا مرکزی حکومت کے نمائندے ہی بتائیں گے کیونکہ زیادتیاں انہوں نے کیں ہیں اور عوام الناس نے ان کو برداشت کیا ہے۔ لہٰذا وضاحت مرکزی حکمران دیں یاوہ جو ہمیشہ سے اقتدار میں رہے ہیں۔ پاکستان بھر میں سو کے لگ بھگ وفاقی ادارے ہیں جو وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں یا ماتحت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا آج تک کوئی سربراہ بلوچ نہیں بنایا گیا۔