سندھ اور بلوچستان میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکمران اور سرکاری اہلکار صحت و صفائی کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے، شاذ و نادر ہی کوئی گاڑی کچرا اٹھاتی نظر آتی ہے یا صفائی کا محکمہ اور اس کے اہلکار کسی سڑک پر صفائی کرتے نظر آتے ہیں۔ صفائی کا عملہ ان دونوں صوبوں میں غائب ہے کراچی اور کوئٹہ تباہی کے مناظر پیش کررہے ہیں۔ ہر جگہ، ہر موڑ اور ہر محلے میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں بلکہ ان ڈھیروں نے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔
سندھ اور پنجاب میں ٹرانسپورٹرز حضرات نے بسوں کے کرایوں میں تھوڑی کمی کا اعلان کیا ہے جو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ تاہم یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کرایوں میں کچھ تو کمی آئی ہے مگر بلوچستان میں جہاں پر ایرانی پیٹرول وافر مقدار میں اور زیادہ سستی قیمت پر دستیاب ہے ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ انتظامیہ بھی خواب خرگوش میں ہے۔ ان کو یہ ضرور معلوم ہے کہ حکومت پاکستان نے پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے شدید احتجاج اور تحفظات کے بعد مردم شماری غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔ سندھ کی حکومت نے باقاعدہ ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کی تھی جس میں متفقہ طور پر مردم شماری ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا بلکہ ساتھ یہ مطالبہ بھی تھا کہ صوبوں کو مناسب اور برابر نمائندگی دی جائے تاکہ آئندہ مردم شمار شفاف ہو اور پورے پاکستان کے عوام کو قابل قبول ہو۔
ایران میں پارلیمان کے انتخابات مکمل ہوگئے ,ساتھ ہی کونسل کے انتخابات ہوئے جو آئندہ کارہبر اعلیٰ منتخب کرے گا ۔ایران کے انتخابات کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور رائے عامہ نے صدر روحانی کے فیصلوں کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس بات کا مکمل اشارہ دے دیا ہے کہ ایران اپنی تنہائی ختم کرنا چاہتا ہے اور دنیا سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اب تک ایران کو انقلابی ایران تصورکیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی اصلاح پسند حکومتیں اور صدور صاحبان اس انقلابی پالیسی کو تبدیل نہ کرسکے گو کہ انہوں نے سرتوڑ کوششیں کیں اور ناکام رہے۔
پہلے تو بلوچستان میں بجلی نہیں ہے اور ہے تو صرف محدود علاقوں تک۔ حکومت نے 67 سال گزرنے کے بعد بھی پورے صوبے میں ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں کیں۔ ابھی بھی مکران، رخشان، وسطی جنوبی اورشمالی بلوچستان کے علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ وہاں پر ٹرانسمیشن لائنیں تعمیر نہیں ہیں تو لوگوں کو بجلی کس طرح ملے گی۔ ماہرین نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بلوچستان میں موجودہ بجلی کے نظام کے بجائے شمسی توانائی پہ توجہ دی جائے۔
پسنی فش ہاربر آج کل دوبارہ بحالی کے دور سے گزررہا ہے۔ یہ فش ہاربر جنرل ضیاء دور حکومت میں بین الاقوامی امداد سے تعمیر ہوا تھا۔ اس کا مقصد مچھلی کی صنعت کو ترقی دینا اور علاقے میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنا تھا تاکہ علاقہ زیادہ خوشحال ہو اور پسنی کے قرب و جوار میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔ سرمایہ کاری بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے کی تھی اور اس کو تعمیر حکومت بلوچستان نے کیا تھا۔ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے چیئرمین ایک سابق سرکاری افسر تھے جو کئی دہائیوں تک سیکریٹری خزانہ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات رہے۔
بلوچوں کو عام طور پر یہ جائز شکایت رہی ہے کہ ان کے جائز مفادات کا وفاق پاکستان میں خاص خیال نہیں رکھا جارہا ہے یا دوسرے الفاظ میں ایک وفاقی اکائی ہونے کے باوجود ان کے مفادات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وجہ تو وفاقی یا مرکزی حکومت کے نمائندے ہی بتائیں گے کیونکہ زیادتیاں انہوں نے کیں ہیں اور عوام الناس نے ان کو برداشت کیا ہے۔ لہٰذا وضاحت مرکزی حکمران دیں یاوہ جو ہمیشہ سے اقتدار میں رہے ہیں۔ پاکستان بھر میں سو کے لگ بھگ وفاقی ادارے ہیں جو وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں یا ماتحت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا آج تک کوئی سربراہ بلوچ نہیں بنایا گیا۔
مشترکہ تفتیشی ٹیم نے اپنی رپورٹ حکومت کو دی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ اچانک اور واقعاتی نہیں تھا بلکہ یہ ایک منظم دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں 259مزدور بھون کر ہلاک کردیئے گئے۔ رپورٹ میں ملزمان کی بھی نشاندہی کی گئی اور کہا گیا ہے کہ بھتہ نہ ملنے کی صورت میں دھماکہ خیز اور آگ لگانے والی کیمیکل استعمال کیا گیا تاکہ فیکٹری کو تباہ کیا جائے۔ رپورٹ میں گزشتہ ایف آئی آر کو خارج کرنے کو کہا گیا جس میں اس کو حادثہ قرار دیا گیا تھا اور کسی ملزم کو نامزد نہیں کیا گیا تھا ۔
پاکستان کے دو کمزور ترین صوبے ہیں ایک سندھ دوسرا بلوچستان۔ طاغوتی طاقتیں ان دونوں کمزور ترین صوبوں پر حملہ آور ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ان دونوں صوبوں میں آبادی کے موجودہ تناسب کو تبدیل کردیں جن کو وہ بلوچ اور سندھ کارڈ کے نام سے پکارتے ہیں۔ لاکھوں افغانوں کا یلغار بلوچستان میں ہے۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کے پاس پاکستان کے تمام دستاویزات موجود ہیں بلکہ ان کو آسانی کے ساتھ اور کوڑیوں کے دام فروخت کردیئے گئے ہیں۔
پاکستان میں شاید ہی کوئی باہوش شخص ہوگا جو ملک کی معاشی ترقی کی مخالفت کرے گا۔ معاشی ترقی کا مقصد معاشی خوشحالی ہے جو ہر ایک فرد کا حق ہے حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ افراد اور عوام الناس کی معاشی خوشحالی اور سیکورٹی کو یقینی بنائے۔ چین پاکستان معاشی راہداری اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے بڑی تعدادمیں چینی سرمایہ کار پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس معاشی راہداری کا محور بھی معاشی خوشحالی ہے۔