بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اپنا منصب سنبھال لیا البتہ اب تک ان کی کابینہ کی تشکیل باقی ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بلوچستان اور اس کی ٹیم کے سامنے صوبے میں حسب روایت پرانے مسائل اور چیلنجز موجود ہیں جن میں بلوچستان کی پسماندگی، محرومی سمیت اہم سیاسی مسائل ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے ۔
گوادر میں بارش اور سیلابی صورتحال نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، لوگوں کی جمع پونجی چلی گئی، مکانات تباہ ہوگئے، کاروبار بھی تباہ ہوگیا، گوادر شہر بارش سے ڈوب گیا، لوگ پہاڑوں پر اب بھی رہنے پر مجبور ہیں جبکہ گلی محلوں گھروں کے اندر پانی موجود ہونے سے وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے بتایاجارہا ہے کہ نکاسی آب 85 فیصد مکمل ہوچکی ہے۔
ملک میں سیاسی استحکام پیداکرنے کیلئے مرکز میں بننے والی حکومت کا انتہائی کلیدی کردار ہوگا کیونکہ جو اپوزیشن اس وقت مرکز میں موجود ہے اکثریت کے ساتھ اس کی پوری کوشش ہے کہ نظام کو چلنے نہیں دینا ہے
پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان میں اپنا وزیراعلیٰ لے کر آگئی ہے یعنی اب بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی جو دیگرجماعتوں سے مل کر بنیگی مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایک طاقتور حکومت ہوگی اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو مرکز میں پیپلزپارٹی کا بڑا حصہ ہے
گوادر، مکران اور بلوچستان کے شمالی اور وسطی علاقوں میں موسلا دھار بارش نے تباہی مچا دی جس سے معمولات زندگی متاثر اور ٹریفک معطل ہو گیا۔ محکمہ موسمیات نے گوادر میں مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے، 2 روز کی مسلسل بارش کے سبب گوادر اور جیونی کے بیشتر علاقے ابھی تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 30 گھنٹے تک جاری رہنے والی بارش نے سیلابی ریلوں کو جنم دیا جس سے بیشتر علاقے زیر آب آگئے۔
گوادر میں کئی گھنٹوں کی مسلسل بارش سے شہر ڈوب گیا ، نشیبی علاقے زیر ا?ب ا?گئے ،بجلی کا نظام بھی درھم برھم ہوگیا ، ندی نالوں میں طغیانی کے بعد گوادر اولڈ سٹی، سربندر اور پشکان میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے کے بعد مکین گھروں سے باہر نکل ا?ئے، متعدد گھروں کی دیواریں منہدم ہوگئیں۔ گودار شہر میں سڑکوں پر بارش کا پانی جمع ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔
اس وقت جب پاکستان کو معاشی دباؤ کا سامنا ہے ان حالات میں بہتری کا تعلق صرف معاشی پالیسیوں سے نہیں ہے بلکہ اچھی طرز حکمرانی، جس میں شفافیت، جوابدہی، شراکت داری، اتفاق رائے، انصاف، قانون کی بلاتفریق عملداری اور حکومت کی اثرپذیری کا شامل ہونا ضروری ہے جو ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ گڈ گورننس کیلئے نئی حکومت کو شرکت داری، اتفاق رائے، متحرک، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ اور قانون کی عملداری جیسے خواص پر کاربند ہونا لازمی ہے۔
ملک پہلے سے ہی سیاسی اور معاشی مسائل میںگرا ہوا ہے جن سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کویک پیج پر رہ کر چیلنجز سے ملک کو نکالنے کے لیے کردارادا کرنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی سیاسی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اگرچہ ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ لیکر ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور وہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کے حوالے سے اپنا کردارادا کرسکتے ہیں مگر افسوس کہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی آڑ میں وہ واردات کرنے کے درپے ہیں حالانکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں اور احتجاج بھی ریکارڈ کراکے قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنا مطالبہ سامنے رکھ ہے ہیں۔
بلوچستان میں عام انتخابات کے نتائج کے بعد چار جماعتی اتحاد کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے، بلوچستان میں اس بار قوم پرست جماعتوں کی توقع کے خلاف نتائج سامنے آئے ہیں۔