گزشتہ روز کراچی میئر اورڈپٹی میئر کاانتخاب ہوا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ میئر اور سلمان عبداللہ ڈپٹی میئر بننے میں کامیاب ہوئے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا سیاسی ایونٹ تھا اور سب کی نظریں ملک کے بڑے شہرکے بڑی کرسی پر لگی ہوئی تھیں مگر اس دوران انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنان کے درمیان تصادم ہوا، دونوں جماعتوں کے کارکنان نے ایک دوسرے پر ڈنڈے برسائے، پتھراؤ کیا، اتنی بڑی سیاسی سرگرمی ہورہی تھی جس کے لیے سیکیورٹی پلان پیشگی تیار نہیں کیا گیاتھا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر رابطوں میں تیزی لانے اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے بہترین طریقے سے کام کیاجارہاہے۔ سفارتی تعلقات کے ذریعے،چین، روس، امریکہ، یورپی یونین ، سینٹرل ایشیاء سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ روس سے تیل ، ایل پی جی سمیت دیگر چیزوں کی ملک میں آنے سے معیشت کا پہیہ چلنے لگے گا اور ساتھ دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہونے کے امکانات روشن ہوجائینگے۔
پاکستان تحریک انصاف اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے بہت کم شخصیات اب پی ٹی آئی میں رہ گئے ہیں پی ٹی آئی کی کمان سنبھالنے کیلئے شاہ محمود قریشی اپنی پوری قوت صرف کررہے ہیں، پارٹی چیئرمین عمران خان سے ان کی دو ملاقاتیں بے سودرہی ہیں ان ملاقاتوں کو تجزیاتی طور پر لیا جائے تو شاہ محمود قریشی نے شاید عمران خان کو فی الحال پارٹی کی چیئرمین شپ چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا لیکن عمران خان اس پر رضا مند نہ ہوئے کیونکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ملاقات کے دوران تلخی بھی پیدا ہوئی تھی۔
بلوچستان کا بجٹ دیگر صوبوں کی نسبت کم ہی ہوتا ہے اوربجٹخسارہ بھیزیادہ ہوتا ہے، بلوچستان ملک کا سب سے بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے باوجود اس کے کہ یہاں میگا منصوبوں سمیت سی پیک جیسا اہم منصوبہ جو ملکی معیشت کیلئے گیم چینجرہے چل رہا ہے اور بلوچستان اس کا مرکز ہے مگر افسوس بلوچستان کو اپنے ہی منصوبوں کے محاصل کیلئے وفاق کے سامنے فریاد کرنا پڑتا ہے۔
ملکی معیشت میں بہتری کب آئے گی، سرمایہ کاری میں تیزی، مقامی اور بین الاقوامی صنعتکاروں کے ذریعے معیشت کوبہتر کرنے کیلئے کیا اقدامات اٹھانے ضروری ہیں یہ تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے کیونکہ ملکی بھاگ ڈور اس وقت پی ڈی ایم کی ہاتھوں میں ہے۔ جب معاشی حالات انتہائی خراب تھے،آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات خراب ہوچکے تھے ۔
بلوچستان حکومت اور وفاق کے درمیان پھر ٹکراؤ پیدا ہوا ہے، اس بار حکومتی سطح پر وفاقی حکومتی رویہ کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے، جس کی بنیادی وجہ مالی مسائل، منصوبوں پر صوبے کے جائز حقوق سمیت این ایف سی ایوارڈ بھی شامل ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کیلئے بہترین اقدامات کرتے ہوئے اپنے ممالک کو اس خطرناک صورتحال سے نکالا ہے مگر چند ممالک آج بھی ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہیں جن میں پاکستان خاص کر شامل ہے یہاںبہت سارے مسائل اور چیلنجز اس وجہ سے پیدا ہورہے ہیں۔آلودگی سے مراد قدرتی ماحول میں ایسے اجزاء کا شامل ہونا ہے جس کی وجہ سے ماحول میں منفی اور ناخوشگوار تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
2014ء سے شروع ہونے والی تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کی غبارے سے ہوااب مکمل نکل چکی ہے اس میں اب کوئی شک نہیں جو شخص تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کا وعدہ عوام سے کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو چور، ڈاکو اور قابض جیسے القابات سے نوازتا رہتا تھا وہ سب ذاتی مفاد ،انا اور اقتدار تک محض رسائی کیلئے تھا۔
مہنگائی میں مسلسل اضا فے کا رجحان مئی میں بھی برقرار رہا،گزشتہ ماہ ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد رہی۔اپریل کے مقابلے میں مئی میں مہنگائی میں 1.58 فیصد اضافہ ہوا۔مئی 2023 میں مہنگائی کی شرح 37.97 فیصد رہی۔ ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مئی میں شہروں میں مہنگائی 1.50 اور دیہاتوں میں 1.69 فیصد بڑھی۔
موجودہ حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج مالی مسائل، مہنگائی، بیروزگاری، صنعتی سرگرمیوں میں تیزی لانے سمیت معیشت سے جڑی وہ تمام چیزیں ہیں جو ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور اس کے لیے حکومت اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے خاص کر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اس حوالے سے زیادہ متحرک ہوگئے ہیں کہ جلد آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر ہوجائیں اور مالیاتی فنڈز مل سکیں۔