آئی ایم ایف قسط کب جاری ہوگا اور اس وقت آئی ایم ایف کیاسوچ رہی ہے؟ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی جانب سے بتایاگیا کہ پاکستان کی سیاست پر ہماری نظریں ہیں مگر اس پر ہم تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات حکومت بلوچستان کی جانب سے ارسال کی جانے والی ایک سمری پر گوادر کو سپیشل اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دینے کی منظوری دے دی۔ واضح رہے کہ گوادر شہر کی ترقی، بندرگاہ سے متعلق سرگرمیوں بشمول سیاحت اور دیگر خدمات کے شعبوں کے لیے ضروری ہے کہ تجارت، سیاحت اور دیگر متعلقہ کاروبار جیسے کہ رئیل اسٹیٹ اور ہوٹلنگ کے شعبوں کو گوادرکو خصوصی اقتصادی ضلع (SED) قرار دینے کے بعد مختلف شعبوں میں مسابقت کی بہترین سطح تک فروغ دیا جائے
پاکستان تحریک انصاف کے اہم ترین لیڈران پارٹی سے مستعفی ہورہے ہیں،ان میں وہ شخصیات بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، ان کی پارٹی سے علیحدگی اور دیگر قومی و صوبائی اسمبلی ارکان کے الگ ہونے کے بعد جنہوں نے حال ہی میں پنجاب انتخابات کیلئے پارٹی سے ٹکٹ لئے تھے انہوں نے بھی راستے جدا کرلیے۔ اتنی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی ارکان کی علیحدگی کے بعد پنجاب میں جہانگیر ترین اور ق لیگ متحرک ہوگئی ہے اور اب جہانگیر ترین گروپ اور ق لیگ سے پی ٹی آئی سے راستہ جدا کرنے والوں کے رابطے تیز ہوگئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق جلد ہی یہ رہنماء جہانگیر ترین اور ق لیگ میں شمولیت اختیار کرینگے پہلے گمان یہ کیا جارہا تھا کہ ان میں سے بیشتر رہنماء ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جاسکتے ہیں مگر جو اطلاعات آرہی ہیں ان میں جہانگیر ترین اور ق لیگ سرفہرست ہیں۔
گوادر بندرگاہ کی فعالیتاور چین کی بڑھتی دلچسپی سے بہت جلد خوشحال بلوچستان کاخواب پوراہوگا ماضی میں سی پیک منصوبوں میں سست روی کے باعث مایوسی پیداہوگئی تھی جبکہ چین کی جانب سے بھی ناراضی دیکھنے میںآیا تھا مگر خطے میں جس طرح سے معاشی ، سفارتی، دفاعی تعلقات میں تبدیلی آرہی ہے اس سے یقینا ہر ملک اپنے مفادات کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے دوست ممالک سے روابط کو مزید گہرے تعلقات میں تبدیل کرنا چاہے گا ۔ پاک چین تعلقات میں مضبوطی ماضی میں بھی بہت شاندار رہی ہے مگر حالیہ مثال جو چین نے ایک دوست ملک کے طور پر قائم کیا اس کی نظیر نہیں ملتی جب آئی ایم ایف کے شرائط سامنے آئے جس پر چین نے سب سے پہلے پاکستان کی مالی مدد کی۔ بہرحال اب گوادر بندرگاہ سے براہ راست برآمد ات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اس سے گوادر بندرگاہ میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ جائیں گی اور سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا اس کا فائدہ پاکستان کی معیشت کو ہوگا۔ گوادر معاشی ترقی کا گیٹ وے ہے جس سے مختلف ممالک کے ساتھ تجارت کو وسعت دی جاسکتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اپنی کم مدت کے دوران جتنی بھی بہترین پالیسیاں بناسکتی ہے اس پر ہنگامی بنیادوں پرکام کرنا شروع کردے تاکہ آئندہ آنے والے سالوں کے دوران ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کو جس تیزی کے ساتھ اس کے رہنما ء چھوڑ کرجارہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی ملک کے کسی بھی صوبے سے کوئی خاص پوزیشن نہیں لے سکے گی مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب پی ٹی آئی پر پابندی کی لٹکتی تلوار حقیقت میں تبدیل نہ ہوجائے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے ہر جمہوریت پسند اس بات پر متفق ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی سیاہ تاریخ کے طور پر یادرکھی جاتی ہے جس طرح ماضی میں نیپ، پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر پابندی لگائی گئی جو سیاسی بنیادوں تھی جس کی آج بھی مذمت کی جاتی ہے البتہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بنیادی وجہ سرکاری املاک، عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور شہداء یادگارکی بے حرمتی وہ عمل ہے جو تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے احتجاج کے دوران نہیں اپنایا۔
ملک میں اس وقت جو سیاسی حالات بنے ہوئے ہیں اس کی بنیادی وجہ پنجاب کے انتخابات ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے پورا زور اور طاقت اس پر لگائی کہ پنجاب میں جلد انتخابات ہوجائیں تاکہ آئندہ مرکز میں انہیں حکومت بنانے میں آسانی ہو۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہی اس بنیاد پر کی تھیں حالانکہ دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر پی ٹی آئی کے اندر اختلافات موجود تھے جس کی ایک واضح مثال سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو ہے جو فواد چوہدری کی گرفتاری کے فوری بعد سامنے آتا ہے جس میں چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ ان کو پہلے کو گرفتار کرلینا چاہئے تھا یہ بہت دباؤ ڈال رہا تھا۔ آڈیو میں غیر اخلاقی زبان بھی استعمال کی گئی۔
پی ٹی آئی کی سیاست اب مکمل طور پر وینٹی لیٹر پر پہنچ چکی ہے ،تحریک انصاف کی تمام اہم وکٹیں گرچکی ہیں اور اس کی وجہ عمران خان کامائنڈ سیٹ ہے جو ون مین شو کی طرح پارٹی کو چلاتا آرہا ہے۔ عمران خان اپنے سے آگے کسی کو نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی کسی کو برداشت کر سکتے ہیں جس کی واضح مثال جہانگیر ترین، علیم عادل شیخ سمیت دیگر اہم اور قریبی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سے ان سے اپنی رائیں جدا کرلیں۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کے پیچھے عمران خان خود مبینہ طور پر ملوث تھے جس کے شواہد بھی مختلف ذرائع سے آچکے ہیں۔ عمران خان اپنی انا اور خودغرض لیڈرشپ کے سواکچھ نہیں سوچتا۔ 9مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات میں متضادات بیانات اور مذمتی بیان دینے میں تاخیر اس کے جھوٹ کی سیاست کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ بہرحال اب پارٹی سے بہت سی شخصیات نے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد واقعات کے بعد اب تک شیریں مزاری سمیت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماء، سابق وزراء اور ارکان اسمبلی احتجاجاً جماعت کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے سیاست اور پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کااعلان کردیا۔
بدلتے ملکی سیاسی نے بہت سے معاملات کو طشت از بام کیا ہے ، ملک میں جن سیاسی مسائل نے جنم لیا ہے ان کے تمام پہلو کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ سیاسی انجینئرنگ سے لے کر عدالتی فیصلوں تک کے معاملات پر بحث ہورہی ہے ، کب کیسے اور کس طرح سے کیا گیا یہ معاملات کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے اور ہمیشہ خفیہ رہے، جس طرح سے خفیہ بات چیت اب آڈیو لیکس کی صورت میں سامنے آرہی ہیں اس سے بہت بڑی کھلبلی مچی ہے ،اب اس منظرنامہ کو مزید واضح ہوتا ہوا دیکھاجائے گا کیونکہ آڈیولیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنادیا گیا ہے اور اس کی کارروائی کا آغازبھی ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے کارروائی شروع کردی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے نہ کرے گا۔ اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان کمیشن میں پیش ہوئے، سربراہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔اس موقع جوڈیشل کمیشن نے آڈیولیکس کی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کردیا،کمیشن کا کہنا تھا کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ان کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عدلیہ کے حوالے سے ہونے والی آڈیو لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام پر عمران خان کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ آڈیو لیک انکوائری کمیشن کے ضوابط میں کئی چیزیں دانستہ چھوڑی گئیں، انکوائری کمیشن میں یہ نقطہ نہیں رکھاگیاکہ وزیراعظم ہاؤس کی غیر آئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟ انکوائری کمیشن میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ حاضر سروس جج صاحبان کی غیرآئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟عمران خان نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن کو اس انویسٹی گیشن کا اختیار ہونا چاہیے کہ سرکردہ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کے ٹیلی فون کون طاقتور عناصر ریکارڈ کرتے ہیں؟
حکومت کی جانب آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ بجٹ میں ریلیف اور مزید ٹیکس لگانے کے معاملات زیر غور ہیں۔ بہرحال یہ بجٹ حکومتی اتحاد کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ عوام کو اس بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم نہ کی گئی تو اس سے عوام میں موجود مہنگائی، بجلی لوڈشیڈنگ، گیس کی عدم فراہمی اور اس کے ساتھ اوور بلنگ کا معاملات سمیت دیگر سہولیات کی عدم فراہمی کا غصہ ابھر کر سامنے آئے گا اور اس کا اثر ووٹ بینک میںکمی کی صورت میں بھی نکلے گا۔