درسگاہیں علم پھیلانے کا ذریعہ ہیں، قوموں کی ترقی اور معاشرے کو درست سمت پرڈالنے کے لیے اداروں کا مرکزی کردار ہوتا ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اگر آج اپنا ایک بڑا مقام بنایا ہے تو اس کی وجہ علمی درسگاہ ہیں۔ہمارے یہاں بدقسمتی سے تعلیمی اداروں تک کو سہولیات میسر نہیں تو دیگر علمی اداروں کی حالت زارکا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ گزشتہ چند روز سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ بلوچستان تربت اکیڈمی پر قبضہ کیاجارہا ہے، اکیڈمی کے ذمہ داران بارہا اپنااحتجاج بیانات کے ذریعے ریکارڈ کرارہے ہیں اور انتظامیہ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں انہیں یہ تسلی دی جارہی ہے کہ قومی اداروں کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور ہر صورت میں قومی اداروں پر قبضہ جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان کا علاقہ ضلع کیچ علمی حوالے سے سب سے اعلیٰ اور بلنددرجہ درکھتا ہے اس زرخیز ضلع نے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں سمیت مختلف شعبوں میں بہترین شخصیات کو جنم دیا اور یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے متعلق ہر وقت سوالات اٹھائے جاتے ہیںکہ ہمارے یہاں جمہوری نظام انتہائی کمزور رہا ہے جس کی وجہ سے معیشت اور سیاسی استحکام کا مسئلہ سراٹھاتا رہا ہے ۔ایک تو غیرجمہوری ادوار بہت زیادہ گزرے جس میں فوج کے سربراہان نے منتخب حکومتوں کو گھر چلتا کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا اور یہ ادوار طویل رہے دس دس سال تک غیر جمہوری حکومتیں رہیں مگر المیہ یہ بھی ہے کہ اسی غیر جمہوری دور میں بھی چند سیاسی جماعتیں کابینہ اور حکومت کا حصہ بنی رہیں ۔اگر سیاسی جماعتیں اس عمل کا حصہ نہ بنتیں تو یقینامارشل لاء کا دروازہ بہت پہلے بند ہوچکا ہوتا مگر اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے سیاستدانوں نے اس عمل کواپنے لیے سود مند سمجھتے ہوئے فائدے اٹھائے اور اپنے حریف جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے تمام تر زور لگایا ،نتیجہ یہ نکلا کہ یہی سیاسی جماعتیں خود بھی اس سیاہ تاریخ سے بچ نہ سکیں اورانہیں اسی مکافات عمل کا سامنا کرناپڑا۔ بہرحال اس طویل تجربہ کے بعد ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے مشرف دور میں ایک اتحاد تشکیل دیا اور یہ طے کرلیا کہ اب کسی غیرجمہوری عمل کا حصہ کوئی جماعت نہیں بنے گا ،میثاق جمہوریت بنائی گئی بدقسمتی سے ایک بارپھریہ اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے نصیرآباد ڈویژن کے پانچ اضلاع میں شدید نقصان پہنچا نے کے بعد اب بے گھر اور تباہ حال متاثرین میں وبائی امراض ایک دوسری آفت کی صورت میںسر اٹھا رہے ہیں۔ڈائریکٹرجنرل پراونشل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نصیرخان ناصر کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں اس کے باوجود صورحال تشویشناک ہے۔نصیرآباد ڈویژن کے سیلاب متاثرین ملیریا، ڈائریا اور گیسٹرو جیسے امراض کا شکار بن رہے ہیں، حکومتی سطح پر موثر اقدامات نہ کیے گئے تو بلوچستان میں انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
ملک میں آنے والے دنوںمیں سیاسی پارہ بڑھنے کا قوی امکان ہے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کے حوالے سے مکمل پلان مرتب کرلیا ہے اور ان کی طرف سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیاجائے گا۔ ملک کے مختلف حصوں سے قافلے اسلام آباد پہنچیں گے اور پی ٹی آئی ریڈزون ڈی چوک کو ہدف بنائے گا یقینا اس سے پورا اسلام آباد ویسے ہی جام ہوکر رہ جائے گااور دارالحکومت میں تمام تر معمولات ٹھپ ہوکر رہ جائینگے جس کے بڑے بھیانک اثرات مرتب ہونگے ایک طرف سیلاب جیسے بحران کا سامنا ملک کو کرنا پڑرہا ہے بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہیں دنیاکے بیشتر ممالک اس وقت پاکستان کوتاسف کی نظرسے دیکھ رہے ہیں کہ فوری ریلیف فراہم کرکے انسانی بحران کو ٹالا جائے۔
ملکی سیاست میں اس وقت آڈیو، ویڈیو لیکس کے ساتھ سائفر کا مسئلہ زیادہ طول پکڑتا جارہا ہے سیاسی حالات اس قدر کشیدہ ہوگئے ہیں کہ حساس نوعیت کے معاملات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں سائفر آڈیو لیک نے تو تہلکہ مچارکھا ہے کہ کس طرح سے ایک وزیراعظم سائفر کو توڑ مروڑ کر… Read more »
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم تو ہوگئیں مگر مہنگائی کی شرح میں کمی فی الحال دیکھنے کو نہیںمل رہی ۔ متعدد بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی اور کم کی گئیں البتہ اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں سمیت دیگر چیزوں کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئیں ہیں جوعوام کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔اس وقت اگر دیکھا جائے تو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جس پر ا نہیں ریلیف کی امیدیں ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جب بڑھائی جاتی ہیں تو مارکیٹوں میں ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس کااطلاق گرانفروش فوری طور پر کردیتے ہیں مگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں تو اس کاکوئی اثر مارکیٹ پر نہیں پڑتا ،اس پر چیک اینڈ بیلنس کون کرے گا؟ کون اس کی ذمہ داری لے گا؟ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں اس اہم مسئلے پر غیر فعال دکھائی دیتی ہیں کسی جگہ پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ۔بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں سرکاری نرخنامہ آویزاں تو کیا جاتاہے مگر اس پر عملدرآمد نہیںہوتا محض دکھاوے کے لیے یہ ایک سرکاری پرچہ رکھا ہوتا ہے جبکہ دکانداریہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں آگے سے سامان مہنگے داموں ملتا ہے اس لیے وہ اپنی طرف سے کس طرح سستے داموں چیزیں فروخت کریں۔
ملک میں ایک بار پھر آڈیواور ویڈیولیکس کی سیاست شروع ہوگئی ہے جہاں ملک ایک طرف مسائل میں گِرا ہوا ہے تودوسری جانب سیاسی تنازعات حل ہونے کانام ہی نہیں لے رہیں۔ ظاہر سی بات ہے ایک طرف سے حملہ ہوگا تو دوسری جانب سے بھی اس کا جواب آئے گا اور یہ ملکی سیاست کے لیے نیک شگون نہیں ہے یہ عمل خود سیاستدانوں کی ساکھ کو متاثر کررہا ہے اس تمام عمل سے عوام میںکیا تاثر جارہا ہے کہ ہمارے سیاستدان کس طرح کا کھیل کھیلتے ہیں اور ہمارے ووٹ لینے کے بعد ہمارے ہی مسائل سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے ایجنڈوں پر لگ جاتے ہیں۔
بلوچستان میں ترقی کے راستے بہت سارے ہیں ۔اپنے جغرافیہ ، ساحل اور معدنیات کے حوالے سے ملک کااہم خطہ ہے مگر اس کی ترقی کے حوالے سے ہر وقت صرف دعوے ہی کئے گئے عملاََ ترقی کے حوالے سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچتا اور صوبہ خودکفیل ہوکر اپنا بجٹ تیا ر کرتا۔ بلوچستان میں میگامنصوبے چلنے کے باوجود بھی عام لوگ بنیادی سہولیات سے آج تک محروم ہیں اور ان محرومیوں اور پسماندگی سے سب ہی واقف ہیںلیکن اس کا ازالہ تاحال نہیں کیا گیاہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری وفاق پر عائد ہوتی ہے کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے ایسے روٹس بنائے جو اس خطے میں معاشی سرگرمیوں کا سبب بن سکیں اور صوبائی حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بارڈ لیتے ہوئے پالیسی مرتب کرے تاکہ اس پر اعتراضات نہ اٹھیں کیونکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہ شکوہ ہر وقت کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے کمپنیاں اور وفاق فائدہ اٹھاتی ہیں جبکہ ہمارے حصہ میں دھیلہ تک نہیں آتا، کچھ رقم ترقی کے نام پر دی جاتی ہے جن سے ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوسکتا جبکہ پنجاب اور سندھ اتنے خودکفیل ہیں کہ وہ اپنے منصوبے خودبناتے ہیں عوام کو سہولیات سمیت روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں مگر بلوچستان کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیاجاتا ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔
ملک میں گزشتہ چند برس کے دوران سیاسی کلچر میں غیر اخلاقی عنصر تیزی کے ساتھ حاوی ہوتا جارہا ہے اس قدر طوفان بدتمیزی مچائی جارہی ہے کہ تمام روایات کو پامال کرتے ہوئے خواتین کی عزت ووقار کو بھی نہیں دیکھاجارہا ہے یہ ٹرینڈ پی ٹی آئی کی جانب سے شروع کیا گیا ہے سوشل میڈیا سے لیکر ہر مقام پر سیاسی مخالفین کو گھیر کران کے ساتھ غیر مہذبانہ رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قدر نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو ناقابل بیان ہیں جو بھی پی ٹی آئی مخالف ہوتاہے اس کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال کی جاتی ہے گھر تک کو نہیں چھوڑا جاتا ہے جبکہ قائدین کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے، اگرکہاجائے کہ لیڈر شپ خود اس تمام ڈائریکشن میں ملوث ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی عوامی اجتماعات میں سیاسی مخالفین کے خلاف اخلاق سے عاری باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے ہیں کہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑینگے اور اپنے کارکنان کو بھی باقاعدہ ہدایات دیتے ہیں کہ مخالفین کہیں بھی ملیں انہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ بہرحال جس طرح کاسیاسی کلچر پروان چڑھایاجارہا ہے اس کے انتہائی بھیانک نتائج نکلیں گے۔
وزیراعظم میاںمحمدشہباز شریف کی جانب سے آڈیولیکس کے معاملے پر تحقیقات کرنے کا فیصلہ بہترین اقدام ہے یہ محض بیان تک محدود نہ رہے بلکہ اس کی ہر طرح سے جانچ ہونی چاہئے کہ کس طرح سے وزیراعظم ہاؤس کے ٹیلیفون کالز ریکارڈ ہورہی ہیں اور کب سے یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔عملہ کو شامل تفتیش کرتے ہوئے تمام تر معلومات لینی چاہئے جیسے کہ پہلے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ جسے چند بیانات کے ذریعے رفع دفع کیاجائے اور اس مسئلے کو سرد خانے کی نذر کیاجائے ،اس لیے ان تحفظات اور خدشات کااظہار کیاجارہا ہے کہ سینیٹ سے جب خفیہ کیمرے برآمد ہوئے تو بہت زیادہ واویلا موجودہ حکومت کے رہنمائوں نے مچایا جب یہ اپوزیشن میں تھے اور اس کے بعد حکومت میں آئے تو اس کی تحقیقات تک نہیں کرائی گئی کہ ایوان بالا جس کی اہمیت اداروں کے حوالے سے بہت زیادہ ہے وہاں کس طرح سے خفیہ کیمرے نصب کئے گئے، عملہ خواب خرگوش میں تھا کہ انہیں کچھ علم نہیں ہوا، کس نے کیمرے نصب کئے ،وہ جن یا بھوت تو نہیں تھے کہ دکھائی نہ دیتے ، انہوں نے کیمرے نصب کئے یا پھر چھوٹا ساآلہ رکھ کر چلے گئے بلکہ کیمرے لگائے گئے ۔