سابق وزیراعظم عمران خان کوجب سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایاگیا ہے وہ اداروں پر شدید تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور مسلسل یہ الزامات لگارہے ہیں کہ انہیں ہٹانے کا بڑا منصوبہ بیرون ملک یعنی امریکہ نے تیار کیا تھا جس نے براہ راست مداخلت کرکے اپوزیشن جماعتوں پر مبینہ سرمایہ کاری کرکے مجھے ہٹایااور اس الزام کو مبینہ خط کے ذریعے انہوں نے لگایا ہے
بلوچستان کا ساحل تجارتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، مغرب سے سینٹرل ایشیائی ممالک کو گوادر کے ذریعے تجارت کے حوالے سے استعمال میں لایا جائے تو پورے ملک کی معیشت کا پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا، عرصہ دراز سے اس جانب توجہ مبذول کرائی جارہی ہے کہ بلوچستان کے خشک اور سمندری راستوں کو دیگر ممالک کے ساتھ ریلوے ٹریک، شاہراہوں کے ذریعے ملایا جائے تو یہ ایک بہت بڑا معاشی اور خوشحالی کا اقدام ہوگا لیکن بدقسمتی سے اس جانب خاص توجہ نہیں دی گئی۔
نئی حکومت بننے کے بعد ملکی مسائل حل ہونے کے حوالے سے بہت سی امیدیں عوام نے وابستہ کررکھی ہیں خاص کر مہنگائی کا جو بوجھ عوام پر گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران لادھ دیا گیا ہے، اس کے ساتھ بیروزگاری نوجوانوں کے لیے چیلنجز کے طور پر سامنے آیا ہے اس کے ساتھ ہی دیگر مسائل جو درپیش ہیں اس صورتحال میں اگر ایسی خبر آجائے کہ آئندہ چند روز میں مہنگائی میں دوبارہ اضافہ ہوگا اور عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لادھ دیا جائے گا تو یقینا عوامی حلقوں میں شدید مایوسی پھیل جائے گی۔
ملک میں اس وقت سیاسی پارہ ہائی ہے۔ پی ٹی آئی مسلسل جلسے کررہی ہے جس کی بنیاد سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے جڑی ہے کہ مبینہ طور پر اس عمل کے پیچھے براہ راست امریکہ ہے جو چاہتا تھا کہ عمران خان کو فارغ کیا جائے اور اس سیاسی عمل میں باقاعدہ رقم دینے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور وہ مبینہ خط جس کا چرچا اب بھی عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے قائدین کررہے ہیں۔
افغانستان میں بدامنی کی نئی لہر سر اٹھانے لگی ہے جس کا پہلے سے ہی خدشہ تھا کہ افغانستان میں اشتراکی حکومت کے بغیر استحکام نہیں آسکتا جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پررہ کر افغانستان کے مستقبل کی پالیسی کے حوالے سے حکمت عملی نہیں بنائینگے اور امریکہ نے بھی دوحہ مذاکرات اور مستقبل کے افغانستان کے حوالے سے طالبان کے علاوہ کسی کو اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی انہیں اس عمل کا حصہ بنایا گوکہ افغانستان میں امریکن نواز حکومت تھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ غیر موثر حکمران کے طور پر ایک کٹھ پتلی حکومت چلارہے تھے تمام تر پالیسی امریکہ کی تھی۔
آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا جمہوری ریاستوں کی جڑوں کی بنیاد ہی قانون اور آئین ہے اگر اس کی خلاف ورزی کسی بھی طرح کی جائے تو سماج انارکی کی طرف جاتا ہے جس کی بیسیوئوں مثالیں دنیا کی ہماری سامنے موجود ہیں قانون سب پر مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے اور اسی کے اندر رہتے ہوئے اسے کام کرنا ہے ،قانون صرف کمزور نہیں بلکہ طاقتورپر بھی لاگو ہوتا ہے
نئی حکومت نے وفاقی کابینہ تشکیل دیدی جس کے حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا کہ موجودہ کابینہ میں تاخیر اندرون خانہ من پسند وزارتوں پر اتحادیوں کے درمیان شدید ترین اختلافات ہیں اس لیے وفاقی کابینہ نہیں بن رہی ہے کہ سب کو کس طرح سے خوش رکھا جائے۔ بلآخر موجودہ حکومت اس عمل سے نکل گئی مگر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جو بڑے چیلنجز اور بحرانات کی صورت میں ہیں، اتنا آسان نہیں کہ چند ماہ کے دوران یہ حل ہوجائیںنئی حکومت نے وفاقی کابینہ تشکیل دیدی جس کے حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا کہ موجودہ کابینہ میں تاخیر اندرون خانہ من پسند وزارتوں پر اتحادیوں کے درمیان شدید ترین اختلافات ہیں اس لیے وفاقی کابینہ نہیں بن رہی ہے کہ سب کو کس طرح سے خوش رکھا جائے۔ بلآخر موجودہ حکومت اس عمل سے نکل گئی مگر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جو بڑے چیلنجز اور بحرانات کی صورت میں ہیں، اتنا آسان نہیں کہ چند ماہ کے دوران یہ حل ہوجائیں
میڈیاریاست کا چوتھا ستون ہے اس کی غیر جانبداری اور آزادی سے فائدہ ملک کا ہی ہوگا مگر بدقسمتی سے جب بھی سچ اور حقائق کو میڈیا نے اجاگر کیا تو انہیں مختلف حربوں کے ذریعے زیرعتاب لانے کی مذموم کوشش کی گئی جس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی آج تک میڈیا اپنی آزادی کی جنگ لڑرہا ہے اوریہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ میڈیا کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے۔