ملک میں معاشی بحران مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے، اوگرا کی جانب سے ایک بار پھر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے، اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزیدبڑھیں گیں تو یقینا اس کا بوجھ براہ راست عوام پر ہی آئے گا جبکہ ملک کی سیاسی شخصیات ،تاجر برادری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ایوانوں میں بیٹھے حضرات کی گاڑیوں کا پیٹرول سرکاری خزانے سے آتا ہے، ان کے دیگر مراعات بھی عوام کے ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں۔ غریب عوام کے لیے سب اچھااور خوشحالی کے دعوے خواب بنتے جار ہے ہیں۔ دوسری جانب اہم عہدوں پر فائز معیشت کو چلانے والے بتارہے ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی کی ہوا چل پڑی ہے سب کچھ بہتر ہے اور مزید تبدیلی آئے گی۔ گزشتہ روز ایک غیرملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ملکی معیشت مستحکم ہوئی۔ رواں سال ملکی معیشت کی شرح نمو5 فیصد سے نیچے رہے گی۔
ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں میں بہت تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے ،اہم بیٹھک لگ رہے ہیں بڑے قائدین خود میدان میں دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں ایجنڈا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کالانا ہے اور اسی سلسلے میں نہ صرف اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کررہی ہیں بلکہ حکومتی اتحاد میںشامل جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے اور بیٹھکیں لگارہی ہیں ۔
بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی حالت زار اور معیار سے ہر ذی شعور واقف ہے کہ بلوچستان کے نوجوان ملک کے دیگر بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں جبکہ پرائمری سطح پر بھی خاص تبدیلی نہیں آئی باوجود اس کے کہ ماضی کی حکومتوں نے خطیر رقم تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لیے مختص کررکھی تھی تاکہ تعلیمی اداروں کی حالت زار بہترہونے کے ساتھ معیاری تعلیم بچوں کو مل سکے۔مگر افسوس کہ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بچے اسکول سے باہر ہیں
عالمی وباء کورونا کی مزید نئی اقسام آنے کا خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ دوبارہ یہ وباء سراٹھاسکتا ہے اور اس کے اثرات خطرناک بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران پاکستان بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا مگر رفتہ رفتہ ملک کو اپنے شکنجے میں لینے لگا جس کے بعد پورے ملک میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ بہرحال چوتھی لہر کے بعد یہ سلسلہ اپنے اختتام تک پہنچ چکا تھا مگر دوبارہ اس وباء نے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے اس لیے احتیاط اور ویکسی نیشن انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر وباء کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا ،اگر لاپرواہی میں اس وباء کو نظرانداز کیاگیاتویقینا اس کے انتہائی بھیانک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔ موجودہ حالات جس طرح سے عوام کو متاثر کررہے ہیں۔
ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے کے بعد اب بجلی کی قیمت میں بڑے اضافے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی درخواست نیپرا کو بھیج دی ہے۔نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو سی پی پی اے کی جانب سے دی گئی درخواست میں بجلی فی یونٹ 6 روپے 10 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔نیپرا کاکہنا ہے کہ درخواست جنوری کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کی گئی ہے جس پر سماعت 28فروری کو ہوگی۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی درخواست کے الیکٹرک کے سوا تمام بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں پیٹرول کی قیمت میں 12 روپے 3 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
ملک میں حالیہ بحرانات انتہائی سنگین شکل اختیار کرتے جار ہے ہیں، عوام کو تسلی دینے کی بجائے اخلاق سے عاری معاملات موضوع بحث بن چکی ہیں۔ جب ملکوں کو بڑے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے تو صاحب اقتدار، اپوزیشن سمیت تمام حلقے درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور آنے والے بحرانوں کو روکنے کیلئے قومی پالیسی بنانے کیلئے سرجوڑ لیتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی ماحول دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ سیاسی اہداف کے حصول کیلئے نجی معاملات پر سیاست اور بحث کی جارہی ہے۔
معاشی آزادی کے بغیر کیسے عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے ؟بدقسمتی سے آئی ایم ایف کے چنگل میں ملکی معیشت بری طرح پھنس چکی ہے ۔ روز معاشی حوالے سے کوئی نہ کوئی بری خبر سامنے آجاتی ہے پہلے یہ تسلی دی جارہی تھی کہ معیشت بہتر سمت کی طرف جارہی ہے قرض بھی لے رہے ہیں چند ماہ کے دوران عوام کو بڑا ریلیف پیکج دیا جائے گا۔ پھر یہ باتیں سامنے آنے لگتی ہیں کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے دیگر ممالک میں مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے ۔کس ٹریک پر معیشت جارہی ہے اور حکومتی پالیسی مبہم ہے کہ مستقبل میںمزید کیا بڑے فیصلے ہونگے جس سے غریب عوام بری طرح متاثر ہوگی۔ بہرحال آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے پیٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا گیا اور پیٹرول اوگرا کی تجویز سے بھی زیادہ مہنگا کیا گیا ہے۔پیٹرول پر فی لیٹر لیوی میں 4 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے، اگر پیٹرول پر لیوی برقرار رکھی جاتی تو قیمت میں 4 روپے فی لیٹر کم اضافہ ہوتا مگر پیٹرول پر لیوی بڑھاکر 17 روپے 92 پیسے فی لیٹر کردی گئی ہے جب کہ اس سے قبل پیٹرول پر فی لیٹر لیوی 13 روپے 92 پیسے عائد تھی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے باقاعدہ طور پر اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے جوانتہائی خوش آئندامرہے۔ اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے تمام محکموں میں جہاں آسامیاں خالی ہیں انہیں میرٹ کی بنیاد پرپُر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مستقبل کے معمار محکموں کے اندر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے علاوہ بھی جتنے میگا منصوبوں پر کام چل رہا ہے ان پر بھی وزیراعلیٰ بلوچستان اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے بیٹھک لگارہے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر نوجوانوں کو پُرکشش روزگار دیا جاسکے جس سے ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوسکے۔
افغانستان میں مالی بحران کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہونے لگا ہے اس وقت افغان عوام شدید بحرانات کا سامنا کررہے ہیں اگر یہ صورتحال اسی طرح برقرار رہی توبڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ افغان عوام دہائیوں سے مصیبت اور دہرے عذاب سے گزر رہے ہیں جنگی ماحول کی وجہ سے افغانستان مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا ہے اور اس کی ذمہ دار بھی عالمی طاقتیں ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے افغانستان کو بیس بنائے رکھا مگر ان کو کامیابی نہیں ملی تو اب افغان عوام کو تنہاچھوڑا جارہا ہے کسی طور پر ان کی مدد نہیں کی جارہی ۔ امریکہ نے ایسے وقت انخلاء شروع کیا کہ بغیر کوئی انتظام اور اپنے ہی افغان حکومت میں موجود اتحادیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔
پاکستان میں اس سب سے بڑا چیلنج معاشی اورسفارتی حوالے سے دنیا کے ممالک سے قرابت کا ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کی جائے جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف مائل کرنا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ انہی ممالک کے سربراہان اور سفیروں سے ملاقاتوں اور رابطوں کو تیز کیا جائے جس طرح سے چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات چل رہے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کوبھی اپنے قریب لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ جب تک پاکستان کے پروڈکٹس عالمی منڈی تک نہیں پہنچتے اور بیرونی سرمایہ کاری نہیں آتی تو ملکی معیشت اوپر نہیں جائے گی۔