مہذب معاشرے اور ممالک کی ترقی کا کلیدی کردار قانون سازی اور نصاب پر ہی منحصر ہے اگران دواہم جز پر توجہ نہیں دی جاتی تو معاشرے میں زوال کا عنصر حاوی ہوجاتا ہے۔
کرپشن وجنسی تدارک پارلیمان کی ذمہ داری ہے
اداریہ | وقتِ اشاعت :
اداریہ | وقتِ اشاعت :
مہذب معاشرے اور ممالک کی ترقی کا کلیدی کردار قانون سازی اور نصاب پر ہی منحصر ہے اگران دواہم جز پر توجہ نہیں دی جاتی تو معاشرے میں زوال کا عنصر حاوی ہوجاتا ہے۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
افغانستان میں استحکام کا مسئلہ ابھی تک برقرار ہے کہ دنیا مستقبل کے افغانستان کو کس طرح دیکھنا چاہتی ہے یہ بہت بڑا سوال ہے جو حل طلب ہے کیونکہ اب تک امریکہ سمیت عالمی طاقتوں نے افغانستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی ہے سیاسی ومعاشی مسئلے پر مکمل طور پر افغانستان کو سائیڈ لائن کردیا گیا ہے
اداریہ | وقتِ اشاعت :
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا تحفہ عوام کوپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دیا گیا ۔ اس کا خدشہ پہلے سے موجود تھا پیشگی تجزیے میں ہی اس کا ذکر کیا گیا تھا کہ ہماری معاشی پالیسی کی سمت درست بالکل ہی نہیں ہے۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
2021ء بہت سی یادیں ،لمحات،واقعات، سانحات لے کر رخصت ہوگیا۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو یقینا صوبے کے مرکزی سیاستدانوں سے لیکر دیگر اہم شخصیات چلی گئیں جو کہ بڑے صدمے سے کم نہیں جن کا کردار بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے باب میں لکھا جائے گا۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل، میرحاصل خان بزنجو، لالاعثمان کاکڑجیسے زیرک سیاستدانوں نے ایک طویل جدوجہد بلوچستان کے حقوق کیلئے کی ۔بہرحال کسی کے نظریہ سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اپنے بساط کے مطابق جدوجہد میں سبھی نے حصہ ڈالا۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
حکومت نے منی بجٹ لانے کی تیاری کرلی ہے اب اس میں یہ دعوے سامنے آرہے ہیں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالاجائے گا اور نئے ٹیکسز اس میںنہیںہونگے ۔گوکہ ریلیف دینے کا جو مسئلہ ہے وہ ابھی بھی دعوؤں کے طورپر سامنے آرہاہے کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران ملک میں مہنگائی نے تاریخی ریکارڈ توڑے ہیں جس میں اہم عنصر ناقص معاشی پالیسی ہے اور متعدد بار وزیر خزانہ کی تبدیلی اس کا ثبوت ہے کسی ایک فرد کو منصب پر رہ کر مکمل ذمہ داری سے کام نہیں لیا گیا یا پھر وہ اس کے اہل کے نہیں تھے۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
عوام کے مسائل کا حل کو نکالے گا؟ کون ان کی داد رسی کرے گا؟ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں؟احتجاج کریں؟شاہراہیں بلاک کریں؟ انتشاری کیفیت پیدا ہوجائے؟ نہ جانے ملک کے اہم محکموں کے اندر بڑے ذمہ داران وآفیسران عوام کو اپنا غلام کیوں سمجھتے ہیں اورعوامی نوعیت کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسز سے بھاری تنخواہ وصول کرنے والے آفیسران کو عوامی معاملات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اگر محکموں کے اندر آفیسران ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے تو شاید بعض حد تک ملک کے اندر موجود بحرانات اور مسائل حل ہوتے اور عوام ہر معاملے پر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہوتے مگر انہیں اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ عوام کو اشتعال میں لانے کے ذمہ داران محکموں کے اندر بیٹھے آفیسران ہی ہیں
اداریہ | وقتِ اشاعت :
وفاقی وزارت قومی صحت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران تسلسل کے ساتھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔یہ اعتراف وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کیا گیا ہے۔وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں ادویات کی قیمتوں میں 2.7 سے 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں انتہاء پسندی کی قسم کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ برابری کی بنیاد پر بھائی چارگی کے ساتھ سب زندگی گزارتے ہیں۔ تمام اقوام، مذاہب، فرقوں کو سیاسی، معاشی اور عبادات کے حوالے سے آزادی حاصل ہے انسان برابرہیں کوئی کسی سے بالاتر نہیں ہے مگر بدقسمتی سے بعض ممالک میں انتہا پسندی کے رجحان میںاضافہ دیکھنے کوملا ہے تیسری دنیا کے ممالک سمیت مغرب میں بھی انتہاء پسندانہ واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
اداریہ | وقتِ اشاعت :
سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف کی حالیہ ویڈیو جس میں وہ بہت جلد پاکستان آنے کاذکر کرر ہے ہیںاس کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے ، بات صرف نواز شریف تک محدودنہیں بلکہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی ایک عوامی اجتماع کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ بہت جلد وہ لندن جاکر نواز شریف کو ساتھ لائینگے جبکہ مریم نواز بھی اس کا اشارہ دے چکی ہیں ۔اب مختلف آراء سامنے آرہی ہیں کہ یہ ن لیگ کی جانب سے سیاسی دباؤ بڑھانے کا حربہ ہے اور کچھ حلقے اسے بیک ڈور بات چیت قرار دے رہے ہیں
اداریہ | وقتِ اشاعت :
بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سے گیس دہائیوں سے نکل رہی ہے مگر آج تک صوبے کے بیشتر علاقے اس گیس سے محروم ہیں اورچند علاقے جہاں خوش قسمتی سے گیس کی سہولت موجود ہے لیکن سردی کی آمد کے ساتھ ہی وہ بھی ناپید ہوجاتی ہے، گیس لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر کی کمی کا مسئلہ سراٹھاتا ہے۔ صارفین کو یہ مسائل عرصہ دراز سے درپیش ہیں مگر کبھی بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کے آفیسران نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ ہمیشہ صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے، کبھی میٹرز اتارے جاتے ہیں کبھی بھاری بھر کم بلز بھیجے جاتے ہیں جبکہ گیس کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال گزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ نے سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے صارفین کو بلوں میں پی یو جی /سلو میٹر چارجز بھیجنے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ محض شک کی بنیاد پر کسی کو سزاوار ٹھہرانا خلاف قانون اقدام ہے۔چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے سینئر قانون دان سید نذیر آغا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر پی یو جی / سلو میٹر چارجز سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا۔عدالت کا کہنا ہے کہ کس طرح کسی صارف کو شک کی بنیاد پر پی یو جی / سلو میٹر چارجز اور پی یو جی / جی ایس ٹی چارجز بھیجے جاسکتے ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 8، 9 اور 25 سے متصادم ہے جو بنیادی انسانی حقوق و دیگر سے متعلق ہیں۔عدالت عالیہ نے ایڈیشنل ڈپازٹ چارجز سے متعلق قرار دیا کہ اگر کسی صارف کو اس سلسلے میں شکایت ہے تو وہ کنزیومر کورٹ سے رجوع کرے، مجسٹریٹس کی تمام عدالتیں کنزیومر کورٹس ہی ہیں۔بلوچستان ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ کسی بھی صارف کا میٹر اتارنے سے قبل صارف کو نوٹس جاری کیا جائے، اگر صارف کی جانب سے 15دن تک نوٹس کا جواب نہ دیا جائے تو پھر متعلقہ تھانے سے مدد لے کر صارف کی موجودگی میں میٹر اُتارا جائے۔عدالت نے پریشر ریگولیشن اسٹیشنز سے متعلق مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو بھی ہدایات جاری کیں۔سماعت کے دوران درخواست گزار سید نذیر آغا ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کوئٹہ سے پشین تک 160 پریشر ریگولیشن اسٹیشنز (پی آر ایس) ہیں جبکہ زیارت تک 72 پی آر ایس اور قلات و مستونگ تک پی آر ایس کی تعداد درجنوں میں ہے، جہاں لوگ اپنے علاقوں کو گیس پریشر کی بہتری کیلئے دوسرے صارفین کے گیس سپلائی کو بند کردیتے ہیں۔جس پر عدالت نے کمپنی حکام کو ہدایت کی کہ وہ اس پریکٹس کو روکے اور اگر اس سلسلے میں کمپنی حکام کو مشکلات ہیں تو وہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور لیویز سے اس سلسلے میں مدد لے تاکہ کسی صارف کی حق تلفی نہ ہو۔سماعت کے دوران سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے ضلع زیارت میں گیس پریشر سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ زیارت کے 6 ہزار سے زائد صارفین کو گیس کی فراہمی کیلئے کچلاک سے 16 قطر کے پائپ لائن سے گیس کی سپلائی شروع کی گئی لیکن راستے میں آنے والے 70 سے زائد علاقوں میں پریشر ریگولیشن اسٹیشنز و دیگر کے ذریعے زیارت کو گیس پریشر متاثر ہوجاتی ہے، اس لئے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ ضلعی انتظامیہ سے پی آر ایس سینٹرز کے ذریعے گیس پریشر میں کمی اور اس کی بندش کی غیر قانونی اقدام کی روک تھام کیلئے پولیس اور لیویز اہلکاروں کی تعیناتی کی استدعا کرتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گیس پریشر کے مسئلے سے زیارت میں جونیپر درختوں کو خطرہ ہے، گیس کمپنی کو زیارت کے پہاڑی علاقوں تک گیس پہنچانے میں مشکل پیش آرہی ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ نے زیارت وادی کیلئے خصوصی طور پر 8 انچ قطر کے 21 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس سے زیارت میں گیس پریشر کا مسئلہ حل ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گیس اور بجلی کے مسائل سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت ووکیشن جج بھی کرے گا، بعد ازاں آئینی درخواست کی سماعت 13جنوری تک ملتوی کردی گئی۔بلوچستان ہائیکورٹ کی جانب سے اس مسئلے پر فیصلہ عوامی امنگوں کے مطابق ہے امید ہے کہ سوئی سدرن گیس اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے صارفین کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی بجائے انہیں شدیدسردی میں سہولیات فراہم کرے گی۔ دوسری جانب گیس چوری کا مسئلہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر بلاتفریق کارروائی ہونی چاہئے کیونکہ گیس چوروں کی وجہ سے غریب صارفین کو عذاب اٹھانا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں جبکہ شہری کرپٹ ذہنیت سے نکل کر ایمانداری کے ساتھ گیس میٹرکا استعمال کریں تاکہ یہ مسائل دوبارہ سرنہ اٹھائیں۔ چونکہ گیس چوری کے متعدد کیس رپورٹ ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہوئی ہے یہ قابل ستائش عمل ہے مگر گیس کی فراہمی سوئی سدرن کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کرے۔