یوں تو اگر ذکر چھیڑا جائے بلوچستان کا تو عموماً اس سرزمین کی پسماندگی کا ذکر ضرور آجاتا ہے۔ بات جب تعلیم پہ آ جائے تو شرح خواندگی میں بھی بلوچستان کی آبادی کے لحاظ سے بہت ہی کم پوائنٹ نظر آتے ہیں۔ جب تعلیم پر بحث کا آغاز کیا جائے تو بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جو اپنی کارکردگی کے گن گاتے ہیں
موجودہ حکومت نے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ مختص کیا ہے جوکہ کوئٹہ شہر کی خوبصورتی ،سیوریج لائن اور پانی کے لئے ہے لیکن فنڈ تو خرچ ہو رہے ہیں درالحکومت میں خوبصورتی ترقی ،پانی وسیوریج نام کی چیز ہی وجود ہیں رکھتی ۔مختلف موقعوں پر دعویٰ کے برعکس ان دو سالوں میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے اور صوبائی حکومت کوئٹہ کو ترقی یافتہ شہر بنانے میں ناکام نظرآرہی ہے ۔
بلوچستان ملک کا وہ پسماندہ ترین صوبہ ہے کہ جسے حکمرانوں کے تمام تر دعوؤں کے باوجود وہ ترقی نہ مل سکا جس کا اعلان حکمران ون یونٹ کے خاتمے کے بعد کرتے چلے آرہے ہیں۔ سرار عطاء اللہ مینگل کی نو ماہ کی کم مدت کی حکومت اور دوسری مرتبہ نواب بگٹی شہید اور قوم پرستوں کے الائنس سے بننے والی حکومت کو چھوڑ کر دیگر تمام صوبائی حکومتوں کا تقابلی جاہزہ لیا جائے
یہ ایک اچھی خبر ہے کہ ملک کے بڑے بڑے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ گوادر بندر گاہ تک پہنچنے والی گزر گاہ کہاں کہاں سے گزرے گی۔ جیسا کہ پہلے خیال تھا کہ یہ ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب ‘ کوئٹہ اور پھر گوادر کی بندر گاہ تک پہنچے گی۔ اس سے قبل پختون رہنماؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس کو ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب شاہراہ سے نہیں گزارا گیا تووہ اس روٹ کو بننے نہیں دیں گے
پورے ملک میں یہ غلط تاثر دیا جارہا ہے کہ گوادر کی بندر گا ہ کو راہداری یا گزر گاہ کی ضرورت ہے اکثر سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے اس خیال کو نہ صرف اپنا لیا ہے بلکہ خرید لیا ہے اور وہ اس خیال کو آگے فروخت کرنا چاہتے ہیں
2010 میں طوفانی بارشوں کے بعد دریائے دشت اور تیراں دسک نامی پہاڑی نالے کی سیلابی ریلوں کا نشانہ بننے سے قبل سو ئی ، ضلع گوادر کے سنٹسر نامی سب تحصیل کا ایک بڑا اور بارونق گاؤں رہا ہے۔ مگر اب اس گاؤں کے اکثر خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ باقی ماندہ مکین ایک اونچے اور محفوظ مقام پر منتقل ہوچکے ہیں
سوچا کہ بلوچستان اسپورٹس فیسٹیول پر دوران میلہ ہی کچھ لکھوں، پر بوجوہ لکھ نہ سکا۔ چناچہ 31مارچ کے اخبارات میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کا فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے خطاب کی خبر پڑھی تو لکھنے کا ارادہ پھر سے تازہ ہوگیا۔ کمانڈر سدرن کمانڈکے خطاب کی سرخیاں یوں تھیں
حاکمیت اور اقتدار کے نمائش بہت ضرروی ہے خصوصاًاس کااظہار شان و شوکت سے ہو اس میں دو رائے نہیں کہ حکمران اور اقتدار لوگ پورے پاکستان میں یکساں طرز عمل کے حامی ہیں اور اس پر عمل در آمد کرتے ہیں اکثر معاملات سے معلوم ہوجاتا ہے
دُر محمد کاسی کی شخصیت اور نام سے گویا بچپن سے آشنا ہوں ۔پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ مرکز سے وقتاً فوقتاً ان کی ڈاکیومینٹریز نشر ہوتیں اور ہم بڑ ے اشتیاق سے دیکھتے۔ پی ٹی وی سینٹر میں تو بہت ساری رپورٹس یا ڈاکیومینٹریز کئی لوگوں کی نشر ہوتیں اور میں کیوں ان میں محض دُر محمد کاسی کو ہی نمایاں پاتا
بلوچستان کی سیاست نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اصولوں کی پاسداری بھی دیکھی، انحرافات کا مشاہدہ بھی ہوا ،تاریخ کے صفحات پر بہت سارے تضادات بھی درج ہیں۔ قید و بند کی مشکلات سے کئی رہنماء دو چار ہوئے۔ سیاسی رفیق اور دوست ایک وقت میں سخت ناقد بن گئے۔ کبھی کوئی غدار تو کبھی کوئی ہیرو کے لقب سے نوازا گیا ۔