|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2015

یوں تو اگر ذکر چھیڑا جائے بلوچستان کا تو عموماً اس سرزمین کی پسماندگی کا ذکر ضرور آجاتا ہے۔ بات جب تعلیم پہ آ جائے تو شرح خواندگی میں بھی بلوچستان کی آبادی کے لحاظ سے بہت ہی کم پوائنٹ نظر آتے ہیں۔ جب تعلیم پر بحث کا آغاز کیا جائے تو بہت سے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے نظر آتے ہیں جو اپنی کارکردگی کے گن گاتے ہیں پھر سوال اٹھتا ہے کہ اتنے اداروں کی موجودگی کے باوجود آج تک بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہتر کیوں نہیں کیا جا سکا۔ انہی وجوہات کا کھوج لگانے کے لئے بلوچی اکیڈمی نے سول سوسائٹی بلوچستان کے تعاون سے پروگرام ’’ پائیدار ترقی میں خواندگی کا کردار‘‘ (بلوچستان کے تناظر میں) منعقد کرایا۔ جبکہ بلوچستان کا آن لائن میگزین ’’دی بلوچستان پوائنٹ‘‘ اس پروگرام کا بطور میڈیا پارٹنر تھا۔ پروگرام میں محکمہ تعلیم کے اسفند یار کاکڑ نے تعلیم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پرائمری سطح پر مادری زبان کو آپشنل مضمون کے طور پر رائج کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے عمل میں لائے جائیں ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جو تعلیمی ادارے اس وقت گراؤنڈ پر موجود ہیں انکی کارکردگی کیا ہے۔ اگر گراؤنڈ پر موجود تعلیمی ادارے فعال نہیں ہیں تو مزید اداروں کا قیام بہتری نہیں لا سکتی۔ بہتر ہے کہ غیر فعال اداروں کو سب سے پہلے فعال بنایا جائے بلوچستانی تعلیم کو کوالٹی کا شعبہ بنانا چاہئے نہ تعداد کا۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ گھوسٹ ٹیچرز کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے آفیسران غیر حاضر اساتذہ سے اپنا ماہانہ بھتہ وصول کرکے انہیں کلین چٹ فراہم کرتے ہیں۔ اور ایسے حرکات و سکنات کی روک تھام کے لئے محکمہ ایجوکیشن کام کر رہی ہے اور محکمہ ایجوکیشن کی جانب سے ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جس کی رسائی ہر عام و خاص کو مل سکے گی کہ بلوچستان میں اسکولوں کی تعداد کتنی ہے ہر اسکول میں ٹیچرز کی تعداد کتنی ہے تب محکمہ ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر حاضر ٹیچرز کو حاضر کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایجوکیشن کا بجٹ اس مرتبہ بڑھا کر ۴۲ ارب کر دیا گیاہے جو کہ اسکولوں کی اپ گریڈیشن، کوالٹی ایجوکیشن پر خرچ کی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایجوکیشن سیکٹر میں سیاسی مداخلت نہیں کی جاتی البتہ اس مرتبہ آفیسران کی قسمت کا فیصلہ انکی کارکردگی پر رکھا گیا ہے ۔محکمہ ایجوکیشن ہی کے منیر نودیزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خواندگی کی شرح 43% ہے۔ جس میں خواتین کی شرح اربن میں 20سے 25فیصد ہے جبکہ رورل علاقوں میں خواندگی کی شرح 15فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014کے ایکٹ کے تحت مادری زبان کو پرائمری کی سطح پر آپشنل مضمون قرار دے کر اسے سلیبس میں شامل کر دیا گیا ہے جسے بلوچستان کی مختلف مادری زبانوں کو انہی علاقوں میں پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس سے بڑی حد تک شرح خواندگی میں اضافہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ مفت تعلیم محض ایک دعویٰ ہے جسکا عملی مظاہرہ زمین پر دکھائی نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ صرف کتابیں فراہم کرنا مفت تعلیم کے زمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ اسکے ساتھ انہیں وردی، غذا اور دیگر ضروریات کا سامان بھی فراہم کرنا مفت ایجوکیشن میں آجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اربن ایریاز میں نقل پر 50فیصد قابو پا لیا گیا ہے لیکن رورل ایریاز میں نقل کی روک تھام کے لئے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور حالیہ امتحانی رزلٹ سامنے آجانے کے بعد ہمیں اندازہ ہو چلا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کہاں کھڑا ہے جسکے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔یونیسکو کے قیصر جمالی نے بلوچستان میں شرح خواندگی کا ایک خاکہ شرکاء کے سامنے پیش کرتے ہو ئے کہا کہ ڈاکار کانفرنس میں شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے چھ گول پیش کئے گئے تھے جس کے تحت 2015 تک بلوچستان میں خواندگی کی شرح بڑھا کر 50فیصد کرنا تھا۔ جس پر خاطر خواہ کامیابی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے رورل ایریاز میں خواتین کی ناخواندگی کی شرح85فیصد ہے جس میں بہت سے مسائل رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لٹریسی کے حوالے سے اب تک کوئی منظم پالیسی سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی اس شعبے کو اون کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ ادارہ عمل میں لایا گیا ہے۔اسکے لئے باقاعدہ ایک لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے اور اسے باقاعدہ ایک شعبے کا شکل دے کر کسی ادارے کی ذمہ داری دی جائے کہ وہ اسے فعال بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ضلعی سطح پر یونٹ قائم کیے جائیں۔نیشنل کمیشن فار ہیومین ڈیولپمنٹ NCHD کے خلیل الرحمان کا کہنا تھا کہ خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لئے انکا ادارہ باقاعدہ سرگرم عمل ہے اور اس ادارے کے تحت ایک ایڈلٹ لٹریسی کا شعبہ کام کرر ہی ہے جس میں ٹیچرز ٹریننگ، تعلیم بالغان اور کتب کی فراہمی شامل ہے۔ادارے کی جانب سے اب تک 18182لٹریسی سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔بلوچی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری محمد پناہ بلوچ کا کہنا تھا کسی بھی مضمون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس مضمون کا زبان مقامی ہوناچاہئے جو کہ کسی بھی طالبعلم کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے دیگر زبانوں سے نابلد بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اردو یا انگریزی میں پڑھانے کا رواج پایا جاتا ہے۔ اور اس طالبعلم کی پوری تعلیمی دورانیہ مضمون کو سمجھنے کے بجائے زبان سیکھنے میں صرف ہو جاتی ہے جس سے انکے سیکھنے کے مواقع ضائع ہوجاتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ پرائمری سے مقامی زبانوں کو لازمی قرار دے کر اسی زبان میں بچوں کو تعلیم دی جائے تو یقیناًاسکے مثبت اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
BECSادارے کے سرفراز علی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ریموٹ ایریاز جہاں پر تعلیمی اداروں کی دسترس عام لوگوں تک نہیں ،انکے ادارے کی جانب سے 607 غیر رسمی اسکول قائم کئے گئے ہیں۔ پروگرام سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ریسرچ کے نادیہ علی اور سوشل ایکٹویسٹ ہارون رئیسانی نے بھی شرح خواندگی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کے آرگنائزرز میں بلوچی اکیڈمی کے روح رواں ہیبتان دشتی، سول سوسائٹی بلوچستان کے محمد سمیع زرکون اور امداد بلوچ اور دی بلوچستان پوائنٹ کے ایڈیٹر عدنان عامر تھے جنہوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنایا۔پروگرام کے مقررین نے زیادہ تر فوکس اپنے اداروں کی کارکردگی پر رکھا امید کی جا رہی تھی کہ انکی جانب سے اہم تجاویز سامنے آئیں گی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ جہاں مقررین نے اپنے اہداف اور کامیابیوں کا ذکر کیا وہیں کھل کر اپنی ناکامیوں کا اعتراف بھی کیا۔ لیکن ایک ایسا واضح ایجنڈا کسی بھی جانب سے سامنے نہیں آیا جہاں مزید چند سالوں کی حکمت عملی مرتب کرکے بلوچستان میں شرح خواندگی کو بہتر کیا جا سکے۔ بلوچستان کے حوالے سے جہاں پالیسی ساز اسلام آباد میں بیٹھ کر پالیسی پلان کرتے ہیں تو محکمہ تعلیم کی نصاب سے لیکر نصابی سرگرمیوں تک تمام اختیارات وفاقی اداروں کے پاس ہوتے ہیں۔ مقررین کی باتیں اپنی جگہ البتہ بلوچستان کی تعلیمی میدان کو بلوچستان کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہربار بلوچستان میں شرح خواندگی کا رونا رونے کی بجائے اسکے حل کے لئے صوبے کی سطح پر علاقائی زبانوں کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرنے کے لئے ایک وسیع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تب جاکر تبدیلی ممکن ہو سکے گی۔