|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2015

یہ بی بی سی لندن ہے اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنئیے‘‘ اپنے دور کی خوبصورت آواز کے ساتھ ایک خوبصورت نام ۔ خبریں سننے کے لئے سامعین کی ایک بڑی تعداد ریڈیو کے گرد جمع ہوکر بیٹھ جاتے تھے۔ پھر کس کی مجال کہ دوران خبر کسی خبر پر تبصرہ کرتا بس ایک گھنٹہ ساکت ہوکر گزارنا پڑتا تھا۔وقت گزرتا چلا گیا اور وقت اکیسویں صدی میں داخل ہو گیا ٹیکنالوجی نے ترقی کر لی اور نت نئے ایجادات سامنے آگئے۔ اکیسویں صدی نے چند چہروں کو بڑھاپے کی شکل دے کر انہیں بی بی سی سے نہ چاہتے ہوئے بھی رخصت ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان میں وقار احمد، رضا علی عابدی، نعیمہ احمد مہجور اور دیگر کئی خوبصورت آواز شامل تھے جنکو اپنے چاہنے والوں سے دور ہونا پڑا۔ لیکن شفیع نقعی جامعی، ماہ پارا صفدر، عارف وقار کی موجودگی نے بی بی سی کے ساتھ برسا برس کے اس رشتے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور انکے اندازِ بیان اور بے لاگ تبصروں نے دور جدید میں الیکٹرانک میڈیا کی ابھرتی ہوئی سورج کے سامنے بی بی سی کی روشنی کو مدہم ہونے سے بچا لیا۔ بی بی سی آج بھی اسی طرح سنا جاتا ہے جو کل تک اسکا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ آپ چاہے کسی جنگل میں ہوں یا پہاڑ ی کے نیچے، دو سیل پر چلنے والا ٹرانزسٹر آپکو اسکی نشریات سے محروم ہونے نہیں دیتا۔ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ادارے نے بی بی سی اردو سروس کا نہ صرف انٹرنیٹ پیج متعارف کرواکر اپنے انٹرنیٹ صارفین کو اپنی پہنچ سے مزید نزدیک کردیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ایف ایم بلیٹن کی نشریات اور پاکستانی چینلز کے ساتھ سیربین کے آدھے گھنٹے کی نشریات کا سلسلہ منسلک کرکے اس میں مزید بہتری کی گنجائش پیدا کردی۔ یعنی دور جدید کی جدتوں کو سمجھتے ہوئے اس میں بہتری لانے کا ذریعہ۔ اور سوشل میڈیا پر اسکاآفیشل صفحہ موجود ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ صارفین کو بی بی سی کے ساتھ رابطہ کرنے میں مزید آسانی پیدا ہو گئی۔جوں جوں بی بی سی کی اردو سروس ریڈیو سے نکل کر ٹی چینلز، ایف ایم اور انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہونا شروع ہو گئی تو اس ادارے کی پالیسی میں بھی تبدیلی آگئی اور ادارے نے اپنے ریڈیو کی سروس سے دو اردو پروگراموں رات 10:30کو نشر ہونے والے پروگرام شب نامہ اور صبح کا پروگرام جہان نماء کو ختم کرکے اپنے ریڈیو سامعین کے لئے صرف ایک گھنٹے کا سیربین پروگرام برقرار رکھا۔ اس عمل سے بی بی سی کے سامعین کو خدشات لاحق ہو گئے ہیں کہ دیگر پروگراموں کی طرح بی بی سی اردو سروس کا واحد پروگرام سیربین بھی دور جدید کی ٹیکناالوجی کی نذر نہ ہوجائے اور بی بی سی کے ساتھ کئی دہائیوں کا رشتہ اپنے اختتام کو نہ پہنچے۔ انہی سامعین میں سے ایک جھاؤ کے علاقے سستگان سے تعلق رکھنے والے بزرگ شخص عبدالستار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ بی بی سی کے ساتھ میراناطہ 1965سے قائم ہے اس وقت سے اس نشریات کو باقاعدگی سے سنتا چلا آرہا ہوں‘‘ ’’ بی بی سی وہ واحد نشریاتی ادارہ ہے جو خبروں کو تول کر اپنے سامعین تک پہنچانے کا سامان فراہم کرتا ہے۔ گو کہ الیکٹرانک میڈیا کا رجحان معاشرے میں دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے لیکن یہ تمام ملکر بھی بی بی سی کی اردو کی نشریات کی اہمیت کو ختم نہ کر سکے۔ اور ایسے لگتا ہے کہ بی بی سی کے ساتھ ایک قسم کی وابستگی اب عادت کی شکل اختیار کر چکی ہے اگر کسی دن بی بی سی کی نشریات مجبوری سے نہ سنوں تو ایسے لگتا ہے کہ سب کچھ ادھورا سا لگ رہا ہے۔‘‘ بی بی سی اردو کی نشریات میں سے دونوں پروگرام کو ختم کرنے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ’’ ان دونوں پروگراموں کو ختم کرنے سے مجھے بے حد دکھ ہوا۔ بالخصوص صبح کا جہاں نما جہاں اخبارات سے لیکر موسم کے حال تک کی خبریں ہوتی تھیں جن سے وہ محروم ہو چکے ہیں‘‘ عبدالستار آج بھی شب نامہ اور جہاں نما کی جگہ بی بی سی کا ہندی سروس سنا کرتے ہیں۔ اور حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں کہ دیگر زبانوں کی نشریات باقاعدگی سے تین تین وقت نشر کی جاتی ہیں لیکن اردو کے سامعین کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں بھرتی گئی جسکا انہیں بی بی سی ادارے سے گلہ رہے گا۔رضا علی عابدی کا پروگرام ’’ جرنیلی سڑک‘‘ اور سدھو کا پروگرام ’’ جمہورا جی بابا‘‘ اسکے پسندیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے۔ عبدالستار کی طرح دیگر ہزاروں بی بی سی کے سامعین آج بھی بی بی سی کے نشریات کو اسی طرح سنتے ہیں جو وہ کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کیونکہ جب آپکا ناطہ کئی دہائیوں کا ہو تو اس رشتے کی جڑوں کو یہ جدید ٹیکنالوجی بھی کمزور نہیں کر سکتا۔اسی لئے بی بی سی اردو سروس نے دور جدید میں پرانے تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے خطوط کے سلسلے کو ختم نہیں کیا ہے جسے عارف وقار اور صبا اعتزاز کی میزبانی حاصل ہے اور ہر رات سیربین کا حصہ ہوا کرتا ہے۔اور اتوار کی شام سیربین میں ہفتے وار کالم’’ بات سے بات‘‘ کا سامعین کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے جسے وسعت اللہ خان اپنے انداز بیان میں الفاظ و جملوں کا خوبصورت چناؤ کرکے پیش کرتے ہیں۔ رہی بات شفیع نقعی جامعی اور ماہ پارا صفدر کی تو پروگراموں کی جان انہی کی مرہون منت ہے۔ ساتویں عالمی اردو کانفرنس میں رضا علی عابدی کو اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کانوں کی سماعت نے بی بی سی کی اسی منظر کشی کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہی آواز اور وہی انداز۔ پروگرام کے اختتام پر مصافحہ کرتے ہوئے میں نے اپنا تعارف بلوچستان سے جوڑتے ہوئے اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ کہہ گئے ’’ بیٹا بڑی حسرت ہے کہ بلوچستان آجاؤں اگر صحت اجازت دے‘‘