شاپنگ مالز کھل گئے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی چلنے لگی، چھوٹی بڑی تمام مارکیٹس میں کاروباری سرگرمیاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے، ملک بھر میں سیاحت کی اجازت کا حکم نامہ بھی آگیا، ٹرینوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافے کے فرمان جاری کئے جارہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں اور کھیل کے میدانوں پر اب بھی ویرانی سی چھائی ہوئی ہے۔اس سے کوئی انکار نہیں کہ کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔
پچھلے کالم میں بات ہو رہی تھی کہ ایک طرف کرزن ہندوستان میں اصلاحات لانے کے لیے برٹش پارلیمنٹ کے ساتھ خط وکتابت کر رہا تھا سیکریٹری آف انڈین افیئرز (وزیرِ امور ہند) سے مسلسل رابطے میں تھا۔ دوسری طرف مسلم لیڈرشپ اپنے سیاسی حقوق کے لیے بھی کوشاں تھی۔کرزن نے ہندوستان کے معاملات کو زیر غور لایا کیونکہ کرزن آتے ہی پورے معاملات کا ژرف بینی سے جائزہ لے چکا تھا۔بلاشبہ کرزن ایک visionary گورنر جنرل تھا۔1901 میں کرزن وزیر امور ہند کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وزیر امور ہند برٹش پارلیمنٹ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔یاد رکھیں سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈین افیئرز (وزیر امور ہند)کی بھی ایک کونسل ہوتی تھی۔ کونسل آف دی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ممبرز کی تعداد ہمیشہ 15 سے کم نہیں زیادہ ہوتی تھی اور یہ سارے برٹش ہوتے تھے وہ جنھوں نے بطور بیوروکریٹ یا آرمی آفیسرز ہندوستان میں serve کیا ہو۔
ملک میں ہر حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کا نعرہ لگا کر عنان اقتدار کے مسند پر فائز ہوتی ہے تو پھر وہ عوام کے مفادات کے برعکس فیصلے کرکے عوام کو مختلف ٹیکس اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تہتر سالوں سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود ملک کو ایماندار قیادت نصیب نہ ہوا اور نہ ہی کسی اچھے حکمران کو حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔ ملک میں جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیل کر جہاں ملک میں عدم ترقی ہوئی وہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی رہا، عوام نہ تو جمہوریت سے بہرہ مند ہوسکی اور نہ ہی آمریت کے ترقی کن نعرے سے مسحور ہوئی۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ انسان اپنے علم وہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے مگر انسان کی شناخت کی اصل بنیاد اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کی حقیقی عظمت کا تعین اس کے معاملات، زندگی کے طور طریقے اور اس کے عمل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر ا س کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہوں مگر اس کے اخلاق و کردار، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔وہ علم و ہنر حاصل کرنے کے باوجود محرومیوں کے اندھے کنویں میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص “جارج فلویڈ” کو امریکن پولیس کے ایک بے رحم اہلکار نے بڑی بیدردی سے قتل کردیا۔ اس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سیاہ فام (افریقن امریکی شہری) تھا اس کے گردن کو امریکی پولیس اہلکار نے تقریباً آٹھ منٹ تک اپنے گھٹنوں سے دبائے رکھا اور دبانے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ جارج فلویڈ پولیس اہلکار کی منت سماجت کرتا رہا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے چھوڑ دیں لیکن امریکی پولیس اہلکار کو ذرہ بھی رحم نہیں آیا حتیٰ کہ جارج فلویڈ اپنی آخری سانسیں گننے لگا تو پولیس اہلکار نے اسے چھوڑ دیا۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔
بلوچستان جب سے صوبہ بنا ہے اس وقت سے لیکر آج تک کسی بھی وزیر اعلیٰ نے صوبائی حقوق، پسماندگی، عدم ترقی اور مرکزی منصوبوں میں بلوچستان کو ترقیاتی عمل میں نظر انداز کرنے کے حوالے سے دو ٹوک اور ٹھوس موقف اختیار کیا اور نہ ہی بھر پور احتجاج کیا ہو، اس طرح کی آپ کو صوبے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی بلوچستان میں کم و بیش ڈیڑھ درجن سے زائد مختلف شخصیات وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود صوبائی حقوق کیلئے کاکوئی ایساکارنامہ سرانجام نہیں دیا جس کی کوئی بھی مثال دی جا سکتی ہو یا یوں کہیں کہ بلوچستان کے عوام ان کے ان عظیم کارناموں پر فخر کرتے ہوں۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ انڈیا میں 1892 کے ایکٹ کے مطابق جو الیکشن ہوا اس میں مختلف یونینز اور کونسلز کو Nominate کیا گیا۔ یعنی ٹریڈ یونینز،بار کونسلز،لینڈ لارڈ ایسوسی ایشنز یونیورسٹی سنڈیکیٹس میں الیکشن کیے گئے۔ان میں سے جو جیتا وہ امپیریل لیجسلیٹیو کے ممبرز بنے۔سر سید School of thought اسے ایک اور نقطہ نظر سے دیکھ رہا تھا بظاہر ہچکولے کھاتی جمہوریت تو پنپ رہی تھی لیکن مسلمانوں کا اس نوزائیدہ جمہوریت میں حصہ دورازدانست تھا۔ایک قابل غور بات بتاتا چلوں کہ 1892 کے اس کونسل ایکٹ میں making Law ہونی ہو تو ہوتا یہ تھا کہ ایگزیکٹو کونسل کے 5 ممبرز باقی ایڈیشنل ممبرز امپیریل لیجسلیٹیو کونسل برٹش آفیشلز بھی اور Elected بھی اکھٹے آجاتے تھے اور گورنر جنرل اس سیشن کی صدارت کرے گا اور سوال کرنے کا بھی کوئی اختیار نہیں لیکن ایسا لگے گا انڈیا کی اسمبلی نے ایکٹ یا بل پاس کر لیا۔
بلوچستان جہاں انسانی حقوق کی پامالی، جبر، زیادتی اور زباں بندی کو اب کئی سال ہونے کو ہیں ایک معمول کے واقعے پہ پھٹ پڑا ہے۔ ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے محض 12 کلو میٹر مغرب میں واقع گاؤں ڈنک (ڈنک کو غلطی سے ڈھنک، ڈہنک، ڈننک وغیرہ لکھا جارہا ہے) میں عید کی دوسری رات ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جو اب یہاں عموما ًہوتے ہیں مگر برسوں سے جاری گھٹن اور زباں بندی کو گویا کھتارسس چاہیے تھا سو اس واقعہ کو بنیاد بنا کر بلوچستان اپنی روایتی مزاحمت پر اتر آیا۔ ڈنک واقعہ میں ریاست کی سرپرستی میں ایک مسلح جتھے کے جرائم پیشہ لوگوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کی کوشش کی۔
بلوچستان گزشتہ کچھ دہائیوں سے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے یہ دہشت گرد بلوچستان میں عوامی مقامات کو نشانہ بناتے تھے جن میں بسوں کے اڈے، ریلوے اسٹیشن بازار و شاپنگ سینٹر ان کا ہدف ہوتے تھے لیکن بعد میں ان دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور زیادہ سے زیادہ بے قصور اورمعصوم لوگوں کو مارنا شروع کر دیا اور بے خبر غریبوں کو نشانہ بنانے لگے۔اب تک بلوچستان میں ہزاروں افراد ایسے واقعات میں شہید ہوچکے ہیں۔ چند روز قبل بلوچستان کے ضلع تربت ڈھنک میں ایک دل دہلادینے والا واقع پیش آیا۔ اقتدار کے بادشاہوں کی سرپرستی میں بندوق بردار ڈاکوؤں نے بلوچی روایات کو پاؤں تلے روند کر چادر و چار دیوار کو پامال کیا اور بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نہتے خاتون پر حملہ آور ہوئے۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس کے منظر عام آنے پر بلوچستان میں محکمہ صحت کی ہسپتالوں میں سہولیات کا پول کھل گیا ہے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو جب بیمار ہوئے تو علاج کے لیے سرکاری ہسپتال گئے،علاج تو اپنی جگہ موصوف کو چوہوں نے سونے نہ دیا۔جب اسپیکر صاحب کے ساتھ یہ رویہ رکھا گیا تو عام مریضوں کی کیا حالت ہوتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ اس وقت ملک میں کرونا آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے کرونا مریض پریشان ہیں چوتھا مہینہ شروع ہے لیکن ڈویژن کی سطح پر ٹیسٹ شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ شروع کے دنوں میں جاری فنڈز کو ٹھکانے لگانے کے لیے راشن تقسیم، میونسپل کمیٹیز نے اسپرے کے ڈرامے کیے۔ مولویوں نے اذانیں دیں۔اب جب کرونا عروج پر ہے بلوچستان حکومت خاموش اور میونسپل کمیٹیز بھی خاموش ہو چکی ہیں۔