حالیہ عالمی وباء کوویڈ-19 کی وجہ سے جہاں روزمرہ زندگی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں اس کے بے پناہ اور تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے مختلف قسم کے جسمانی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس وباء کی وجہ سے لاکھوں انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک نے لاک ڈاؤن کرفیو اور مارکیٹوں دکانوں سکولوں اور عبادت گاہوں کو مکمل یا جزوی طور پر بند کیا ہوا ہے۔
بلوچستان بھر میں ترقیاتی کاموں کا معیار روز بروزگرتا جارہا ہے جس کے باعث تمام سرکاری منصوبے اس اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں بنتے جو بننا چاہئے تھا۔ آپ اس کی مثال پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ جیسے عظیم منصوبے کے حشر سے اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود کینال بحالی کا نام تک نہیں لے رہا۔ ایسے کئی منصوبے بلوچستان کے میڈیا کی زینت بنتے ہیں جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ صوبے میں میرٹ کے تحت اوپن ٹینڈر نہ کرانے اور اپنے من پسند ٹھیکیدار سے غیر معیاری اور ناقص منصوبے مکمل کرانا جہاں معیار اور کوالٹی نام تک کا ہو، وہاں کوئی بھی منصوبے چھ ماہ تک چل نہیں سکتے۔
آج کے اس جدید دور (فورتھ جنریشن) میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر چیز آسانی سے دستیاب ہوتا مگر جن سرکلوں اور روایتوں نے ہماری ذہنی و فکری تربیت کر کے مہذب بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اس سے ہم تیزی کیساتھ دور ہوتے جارہے ہیں،۔۔۔ کْتب بینی (Reading Book)کلچر، اگر آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق ہم surviveکررہے ہیں تو یہ انہی اسٹڈی سرکلز، کتب بینی، مکالمہ اور بحث و مباحثے کی روایتوں اور فکری تربیت کی مرہون منت ہے، مکالمہ، بحث مباحثہ تربیتی نشست اور تنقید برائے تعمیر ہمارے معاشرے کی خوبصورتی تھی۔۔
چند دن پہلے یعنی 11 مئی کو اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا جنم دن تھا۔پائے کے لکھاریوں نے منٹو کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ان کے بارے میں خوب قلم فرسائی کی۔جب اتنے سارے مضامین دیکھے تو میں نے چپ سادھ لی۔ویسے بھی مجھ جیسا نو ساختہ لکھاری اتنے بڑے ادیب پر نوک ِقلم سے کتراتا ہے۔لیکن آج بیٹھے بیٹھے ایک جسارت کرلی منٹو نہ سہی سندھی منٹو پہ لکھنے کا تہیہ کر لیا۔
کورونا کا وبائی مرض 26 فروری کو پاکستان آنے کے بعد اب تک اس موزی مرض میں ملک کے 34325 شہری مبتلا ہو چکے ہیں جن میں 8555 شہری صحتیاب اور 737 شہری موت کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس وبائی مرض نے جہاں پوری دنیا کے معاشی نظام کو لاک ڈاؤن پر مجبور کیا اور دنیا کے بڑے بڑے ملک اورشہر لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اور کاروبار سے الگ ہو گئے۔ انہی بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہر وں کولاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوئے۔ تمام سیکریڑیٹ، سرکاری دفاتر، فیکٹریاں، کارخانے اور کاروبار بند کر دیئے گئے اور اب 09 مئی کو وفاقی حکومت نے کنسٹرکشن کی صنعت سمیت بہت سے کاروبار، تجارت اور دوکانوں کو SOPs کے شرائط کے ساتھ کھول دیا ہے۔
ملک بھر میں کورنا وائرس کے تیزی کے ساتھ پھیلاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیاگیا بلوچستان کی صوبائی حکومت نے انسداد کورنا کیلئے سب سے پہلے محدود وسائل میں رہ کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ صوبائی حکومت نے جہاں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے وہی حکومت نے بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور مستحقین کیلئے امداد ی پیکچ اور ریلیف فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہاڑی دار افراد متاثر نہ ہوں اور اب تک حکومت کی یہ حکمت عملی دیہاڑی دار اور مستحق خاندانوں کیلئے معاون ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان کے دیگرعلاقوں کی طرح بلوچستان کے باسی بھی عیدالفطر کو میٹھی عید کے نام سے پکارتے ہیں، اس عید کو محبتوں کی مٹھاس کے علاوہ اس سے جْڑی میٹھی سوغاتوں کی بدولت اس کو میٹھی عید کا نام دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں میٹھی عید پہ سیویّاں لازم وملزوم ہیں۔ میٹھی عید پر سیویّاں نہ ہوں تو عید ادھوری سمجھی جاتی ہے۔بلوچستان میں پہلے ہاتھوں سے تھوڑی تھوڑی کر کے سیویّاں تیار کی جاتی تھیں، اب مشینی ہاتھوں نے اس کام کو تیز رفتار بنا دیا ہے مگر آج بھی بلوچستان میں ان مشینی ہاتھوں کا استعمال بہت کم ملتا ہے۔ شاید اس کی وجہ غربت ہے یا صدیوں پرانے رسم و رواج۔
غلام صرف ایک شخص ایک فرد نہیں ہوتا غلامی صرف فرد یا قوم سے آزادی چھن جانے کا نام نہیں ہے اور نا ہی اپنی مرضی سے زندگی نا جینے کا نام ہے غلامی ایک گہرا روگ ہے ایک خوفناک مرض ہے۔۔جب ایک قوم غلام ہوتی ہے نا تو صرف اس قوم کے لوگ غلام نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ پوری دھرتی غلام ہوتی ہے پورا خطہ جس میں غلام قوم آباد ہوتی ہے غلامی کا لحاف اوڑھ لیتا ہے۔وہاں کی فضاء چرند پرند وہاں پہ پھیلا امبر سب غلام ہوجاتے ہیں۔ وہاں کی مٹی میں غلامی کی بو ہوتی ہے۔غلاموں کی زمین پہ پہلے بلند وبالا سنگلاخ پہاڑ ان پہاڑوں کا سینہ چیرتی سرنگیں اور ان پہاڑوں کی گود میں پلنے والے نایاب جانور سب غلام ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ روز میں بھٹو صاحب کی سندھی میں تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایک فقیر کا واقعہ بتا رہے تھے کہ تخلیق پاکستان سے قبل لاڑکانہ سے ہم ٹرین کے ذریعے بمبئی جاتے تھے اس وقت لوگ جمعہ کے دن خیرات کا اہتمام کرتے تھے، ہم بھی اسی روز خیرات کرتے تھے۔ ایک فقیر اسی روز ہمارے ہاں خیرات کے لیے آتا تھا ایک دن اس فقیر نے مجھ سے کہا آج ٹرین لاڑکانہ سے بمبئی نہیں جائے گی، میں اسے اپنی روحانی طاقت سے جانے نہیں دونگا۔ میں اس وقت چھوٹا تھا اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا اور اپنے والد سے کہا کہ فقیر کہہ رہا ہے میں ٹرین کو جانے نہیں دونگا۔
صحافت عربی زبان کے لفظ ”صحف“ سے ماخوذ ہے جس کا مفہوم صفحہ یا رسالہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں جرنلزم، جرنل سے ماخوذ ہے یعنی روزانہ کا حساب یا روزنامچہ۔صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق یا پھر سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے بشرطیکہ اس سارے کام میں نہایت ایمانداری اور مخلص انداز میں کیا جائے۔صحافت لوگوں کی رہنمائی کرنے، افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنے، معلومات بہم پہچانے اور تبصروں کے ذریعہ عوام الناس کو حقائق سے روشناس کرانے کا نام ہے۔تین مئی کو دنیا بھر میں عالمی یوم صحافت منایا جاتا ہے، اس دن صحافت کی راہ میں ایثار و قربانی پیش کرنے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، مختلف تقاریب منعقد ہوتی ہیں اور دانشور حضرات پرمغز تقاریر کرکے اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔