آواران کا سفر تمام کرکے ایک بار پھر کوئٹہ جاگزین ہو ئے۔ اب کے بار ایک نیا خاکہ ذہن میں آچکا تھا،عابد میر کے ساتھ نشست تھی ان کی جانب سے تجویز یہ سامنے آئی کہ آواران میں کتابوں کا کوئی میلہ کیوں نہیں رکھتے،دو چار دوست وہاں جائیں گے ایک دن گزار کر واپس آجائیں گے۔ خیال آتے ہی ہم اس پر کام شروع کر چکے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ چار سال قبل عابد میر اور ہیبتان کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ایک آن لائن نیوز ویب سائیٹ کا خیال آیا تھا۔ بعد میں وہ خیال حقیقت میں بدل گئی تھی اور ہم ”حال حوال“ ویب سائیٹ کو لانچ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
آج جب کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے دنیا بھر میں ہزاروں جانیں اس مہلک وائرس سے جا چکی ہیں ملک کے ملک لاک ڈاؤن ہیں، بڑی بڑی معیشتیں ڈوب چکی ہیں جن کو اپنے سپر پاور ہونے پر ناز تھا، سب کے سب مائیکرو اسکوپ سے نظر آنے والے معمولی سے وائرس کے آگے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس بیماری کا مقابلہ نہ کرسکے اس وائرس کا بدقسمتی سے ہمیں بھی سامنا ہے۔ ہماری تاریخ مشکلات کا مقابلہ کرکے سرخرو ہونے والوں میں لکھی گئی ہے، مورخ نے جب بھی ہماری تاریخ لکھی بہادری،حب الوطنی اور سخاوت کے قصوں کی داستان لکھی۔
کرونا وائرس کے قہرکی وجہ سے عالمی معیشت جیسے منہ کے بل گری ہو۔ 1930ء کے بعد عالمی معیشت کو کرونا وائرس کی وجہ سے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ((IMF کی پیشینگوئی کے مطابق 1930ء کے بعد یہ سال عالمی معیشت کے لیے بد ترین ثابت ہو گا۔ ادارے کے مطابق معیشت کے 3فیصد سکڑنے کا امکان ہے جو کہ 2009ء کی کساد بازاری کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
غیر سرکاری تنظیم یا این جی او قانونی حیثیت سے ترتیب پانے والا ایسے ادارہ ہوتا ہے جو کسی بھی خطے میں عام افراد تشکیل دیتے ہیں اور ان اداروں کا انتظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اس خطے میں رائج حکومت سے تعلق نہیں رکھتے۔ غیر سرکاری تنظیم یا ادارے کی اصطلاح ان اداروں کو دنیا کی حکومتوں کی جانب سے ہی دیا گیا نام ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی مخصوص خطے میں ان تنظیمات یا ادارہ جات کا حکومت وقت سے کسی بھی طرح تعلق نہیں ہوتا یا ان ادارہ جات یا تنظیمات کے افعال پر حکومت وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
میں ہمیشہ لیاری کو فٹبال کی ماں کا درجہ دیتا ہوں کیوں کہ لیاری نے بے سرو سامانی کی حالت میں بھی ہمیشہ اپنے بطن سے فٹبال کے بہترین کھلاڑیوں کو جنم دیا اور کھلاڑی بھی ایسے کہ جنہوں نے اپنے عمدہ کھیل کی بدولت بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ماضی کی طرح آج بھی لیاری کے فٹبال میں ایسے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں کہ جو اپنی بھرپور محنت اور بہترین کھیل کی بدولت شائقین فٹبال کے دلوں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ان باصلاحیت کھلاڑیوں میں ایک نام سمیر اصغر المعروف ڈیوڈ کا بھی ہے کہ جو آج لیاری کی قدیمی اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ کی چیمپئن ٹیم حیدری بلوچ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر افغانستان میں امن کی بات کریں تو افغانستان کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ 1839ء سے لے کر 1842ء تک لڑی جانے والی پہلی جنگِ آزادی سے لے کر آج تک افغانستان میں امن کے ادوار کم اور جنگ کے ادوار زیادہ ہیں۔ افغانستان عالمی طاقتوں کی جنگوں کا مرکز رہا ہے اور عالمی طاقتوں کے لیے قبرستان بھی ثابت ہوا ہے۔1979ء سے 1989ء تک دس سالہ طویل جنگ میں روس کو افغانستان سے شکست ہوئی اور اب 18سالہ طویل جنگ کے بعد امریکہ کو افغانستان سے امن معاہدہ کی صورت میں نکلنا پڑاہے۔
ادارے ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں سرکاری اداروں کے ساتھ نجی ادارے اور دیگر این جی اوز بھی کام کرتی ہیں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ جس سے بے روزگاری میں کافی حد تک کمی آتی ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان کا نصف بوجھ پرائیویٹ اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو ان اداروں نے ہمیشہ ملکی ترقی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اساتذہ کی ایک کثیر تعداد نجی تعلیمی اداروں میں قوم کے نونہالوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔
میں نے آواران کے مختلف سکولوں کی فہرست بنا کر ان کا دورہ کیا جن میں مڈل سکول بیدی، گرلز ہائی سکول بیدی، گرلز مڈل سکول سوراب، گرلز ہائی سکول آواران ٹاؤن، بوائز پرائمری سکول سوراب، بوائز ہائی سکول کہن زیلگ، پرائمری سکول انامی بھینٹ، بوائز مڈل سکول ماشی، گرلز سکول کہن زیلگ اور ایجوکیشن سینٹرز شامل تھے۔ وہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں کیں انہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کیا، ان کے مسائل سنے، بچے اور بچیوں کو سنا۔ سکولوں کو مسائل کا آماجگاہ پایا۔ اسپورٹس گراؤنڈ، پانی، واش رومز اور دیگر مسائل کا سامنا کرتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو بجٹ ان سکولوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے وہ جاتا کہاں ہے۔ صوبائی سطح پر بیٹھے ذمہ داران اور پالیسی سازوں کو کیا گراؤنڈ کی اس صورتحال کی خبر ہے جس صورتحال کا سامنا یہاں کے بچے اور اساتذہ کر رہے ہیں۔ یہ خاکہ اوجھل ہے۔ سکولوں تک رسائی ہم بائیک کے ذریعے کرتے رہے،بائیک کی یہ سہولت ہم خیال دوستوں کی مرہونِ منت تھی۔
کراچی جو اس وقت دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے یہاں بہت سے رفاعی ادارے اور سماجی رہنما اپنے حصے کا کام کررہے ہیں جس میں صحت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب رضوی ایس آئی یو ٹی انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری اپنے کام کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا ہرشخص کی لوگوں میں قدر وقیمت اور احترام اس کے ہنر سے ہے۔انسان اپنے لئے توہر کوئی جیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں وہ اللّہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اللّہ کے فضل و کرم سے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔
چین سے نمودار ہونے والا کورونا وائرس بے احتیاطی اور لاپرواہی برتنے کے سبب آج پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اورلاکھوں افراداس خطرناک وائر س کا شکارہوچکے ہیں اور پوری دنیا میں اس وقت تک یہ وائرس ایک لاکھ بارہ ہزار سے زائد افرادکی زندگیاں نگل چکا ہے کورونا وائرس نے آج پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اوریہ وائرس تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں با آسانی پھیل رہا ہے دنیابھرکے ماہرین طب اس مرض کا علاج تاحال تک دریافت نہیں کرسکے ہیں صرف احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے پر زوردیا جارہا ہے پاکستان میں بھی اس وقت کوروناوائرس مزیدپھیل رہاہے حکومت وقت نے اس سے بچاؤ کیلئے ہنگامی اقدامات کرکے عوام کے وسیع ترمفادات میں بعض فیصلے کیے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کرکے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا گیا ہے۔