کرونا وائرس ترقی یافتہ ممالک چین امریکہ اٹلی ایران سعودی اربیہ سمیت دیگر ممالک سے ہوتا ہوا ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی داخل ہو گیا ہے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر صوبہ لاک ڈؤان ہو چکا ہے سرکاری دفاتر تعلیمی ادارے بکرا منڈیاں بند ایک خوف کا عالم بنا دیا گیا ہے اس کے بدلے میں حکومت کیا کر رہی ہے سب کو پتہ ہے حکم نامہ پر حکم نامہ عمل صفر ہے بلوچستان حکومت کے پاس وزیر صحت نہیں ہے۔
چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا اور ایران سے ہوتا ہوا غلطی سے بلوچستان آپہنچا۔ ہاں اس وائرس سے تو بڑی غلطی ہوئی, اس مہلک وائرس سے تو پہلے ہی انگنت وائرس بلوچستان میں آئے روز لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھوک کا وائرس ہے جس نے لاکھوں بچوں کو غذائی قلت کا شکار کر دیا ہے مگر کسی نے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔
بادشاہت کا دور تھا،ایک دن بادشاہ نے سوچا، جب سے بادشاہ بنا ہوں کوئی درخواست گزار نہیں آیا۔ وزیروں مشیروں کو طلب کیا سب نے کہا،جناب آپ کی حکومت میں عدل ہے انصاف ہے، عوام کو بنیادی سہولیات صحت،تعلیم، پینے کا صاف میسر ہے اس لیے کوئی شکایتی نہیں ہے۔ بادشاہ عقل مند تھا، سوچا کچھ گڑ بڑ ہے اس نے اعلان کیا کہ شہر کے داخلی وخارجی راستوں کی چیک پوسٹوں پر آنے جانے والوں کوصبح شام دو دو جوتے ماریں۔یہ سلسلہ شروع کردیا گیا شام ہو گئی کو ئی شکایتی دربار نہیں آیا۔ دوسرا دن،تیسرا دن گزر گیا کوئی نہیں آیا آخر چوتھے دن آٹھ دس بندے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے،بادشاہ خوش ہوا کچھ لوگ تو شکایت لے کر آئے۔
تعلیم کی اہمیت اورافادیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ تعلیم کے بغیرکوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ علم سیکھنے اورسکھانے سے متعلق قرآن واحادیث میں بیشمارفضائل بیان ہوئے ہیں۔مگرافسوس کیساتھ کہناپڑتاہے کہ صوبہ بلوچستان تعلیم کے حوالے سے پسماندہ صوبہ جاناجاتاہے۔صوبہ بلوچستان دیگرانگت مسائل سے دوچارہونے کیساتھ ساتھ تعلیمی بحران کا بھی سامناکررہاہے۔ بلوچستان میں سینکڑوں سکول زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ہزاروں قابل اساتذہ پرائیویٹ سکولوں میں چکرکاٹتے پھرتے ہیں۔ بلوچستان کے لاکھوں بچے تعلیم وتربیت سے محروم گلی کوچوں میں پھرتے ہیں یاپھرگیرج، تندور یاہوٹل والوں کے رحم وکرم پررہ کرصلاحیتوں کوبرباد کررہے ہیں۔
بلوچستان کے معاشرے کےبارے میں عام تاثر ہے کہ یہ ایک روایتی اورقدامت پسند معاشرہ ہے،،،اس معاشرے میں خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں ،،ان میں تعلیم اور صحت کےمسائل نمایاں ہیں جن کااندازہ صرف دو باتوں سے لگایاجاسکتا ہے کہ جس میں ایک کی شرح ملک میں سب سے کم اور دوسرے کی سب سے زیادہ ہے،،یعنی ملک میں خواتین میں سب سے کم شرح خواندگی اسی صوبے میں ہے اور اسی طرح زچگی کے دوران ماوں کی شرح اموات بھی اسی صوبے میں سب سے زیادہ ہے،،،،،،اور اگر بات ہو غیرت کے نام پر قتل کی تو اس کی شرح بھی کم وبیش بلوچستان میں زیادہ گردانی جاتی ہے،،،،یہ اور اس طرح کےدیگر مسائل بلوچستان کا مثبت کی بجائے ایک منفی تاثر اجاگر کرتے رہے ہیں۔۔
عورت کا پہلا کام پہلی ذمہ داری سنبھلنا سنبھالنا۔ خاندان کے افرادکیساتھ برابر چلنا شوہر کے ساتھ سچی دوستی نبھانا اولاد اور عزت کے لیے سختیاں جھیلنا۔ مدر سری ہویا پدرسری نظام وقار کے ساتھ جینا خوشی اور غممیں خود کو ثابت قدمرکھنا’اعبار ’اعتماد کو مقدم رکھنا۔۔۔ جنس کی تفریق کے بغیر یہ جملے ہر انسان کے لئے مقدم خیال کیے جاتے ہیں۔ انسانی خوبیوں کا تقدس اور احترام آدمیت معآشروں کا روز اول سے وطیرہ رہاہے تاریخ کو ٹتولیے مرد جانے جہاں اپنے کام کاج کے لئے اوزار بنائے تو خواتین نے خوبصورت کشید کاری سے اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے۔ جنگی ماحول میں مرد اور عورت دونوں کا حوصلہ و ہمت مثالی رہا ہے۔
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے ملک بھر کا صنعتی پہیہ چل رہا ہے۔ مگر کوئٹہ کے علاوہ باقی صوبے میں لوگ چولہا جلانے کیلیے اب بھی لکڑیاں استعمال کررہے ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر بھی اس پسماندہ صوبے کی قسمت نہیں بدل سکے۔ ریکوڈک اور سیندک بھی اس صوبے کی پسماندگی دور نہ کرسکے۔پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے نام پر بلوچستان کو دوسرے صوبوں اور چین سے ملانے کیلیے ایک شاہراہ تو بنائی گئی، مگر کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل نہ کیا جاسکا، جہاں سالانہ حادثات کی وجہ سے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بلوچستان کا طویل ساحل جو کہ بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ جبکہ اس پسماندہ صوبے کے بین الاقوامی فضائی روٹ بھی سالانہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کررہے ہیں۔
مکران کے حساس ساحلی علاقوں کو ماضی قریب میں آبی حیات کے لئے محفوظ سمجھا جاتا تھا، دنیا میں معدوم ہونے والی کئی اقسام کے آبی مخلوقات مکران کے ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ نایاب نسل کے سبز کچھوؤں کی افزائش نسل کے لئے مکران کے ساحلی علاقے ”دران بیچ“ جیوانی، ”تاک بیچ“ اورماڑہ اور ”ہفتلار جزیرہ“ پسنی کو محفوظ پناہ گاہوں کا درجہ حاصل ہے۔ یہ علاقے مقامی آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے کچھوؤں کے افزائش نسل کے لئے اہم علاقے ہیں۔ اب انہی علاقوں میں نایاب نسل کے سبز کچھوے مردے حالت میں مل رہے ہیں۔
قومی ثقافت کی تشکیل میں ادیب و شاعر سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، قومی احساس کو ابھار نے اور قومی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے یہ تمام لوگ گیتوں، قصوں، کہانیوں اور دیومالاہی تصورات کو تحریر میں لاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی ان کی تخلیقات زبان و ادب کو ذر خیز کرتے ہیں۔ زبان کسی معاشرہ کی ذہنی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے جب تک زبان میں علمی و ادبی و فلسفیانہ موضوعات نہیں آئیں گے اس وقت تک معاشرہ کا ذہنی شعور محدود رہیگا اور جب مقامی زبان میں ادب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی زبان کے معیار کے لیے قوانین و قواعد مرتب کیے جاتے ہیں اور لسانیات کے شعبہ میں ترقی ہوتی ہے۔
یہ 1994 کی بات ہے جب میرے والد سہیل سانگی نے سندھی زبان میں ہفت روزہ “آرسی” کا اجراء کیا تھا، یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیرینہ دوست بشیر ملاح بھی تھے جو میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ سیاسی سفر کرچکے تھے، میں نے ابھی صحافت کا کوئی باضابطہ سفر شروع نہیں کیا تھا لیکن اس میگزین کے کچھ انتظامی امور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ جب بات آئی کہ بلوچستان کی صورتحال پر کون لکھے گا، تو والد نے بتایا کہ اپنا کامریڈ صدیق بلوچ ہے نا کوئٹہ میں، وہ لکھیں گے۔