سطح سمندر سے 5688 فٹ کی بلندی پر واقع گورک ہل جسے بلوچی زبان میں گرک کوہ کہا جاتا ہے۔ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔ بکھری ہوئی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے مگر یہ علاقہ دور جدید میں بھی سکول کی سہولت سے محروم ہے۔ سکول سے محروم علاقے کے بچوں کو تعلیم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے گل محمد بلوچ رضاکارانہ بنیادوں پر بطور استاد خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ عمارت کی عدم دستیابی کے باعث انہوں نے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر نہ صرف ٹینٹ اور ٹاٹ کا انتظام کروایا بلکہ بچوں کے لیے بستہ اور کاپی کتابوں کا بندوبست بھی کیا۔ یوں اس کی جدوجہد رنگ لے آئی جہاں تعلیم کا تصور ہی نہیں تھا اب وہاں تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔
میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں تو میرے سامنے گاؤں کی وہی تصویر آجاتی ہے جو میرے بچپن میں ہوا کرتا تھا، سوالات میرے گرد ڈیرہ ڈالتے ہیں میرے گاؤں کے بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم کیوں ہیں؟ کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہوں مگر جواب تلاش نہیں کرپاتا۔نہ ہی گاؤں کے مرد پڑھے لکھے اور نہ ہی خواتین۔ ایک دن ایک خاتون سے سامنا ہوا،بغل میں بیمار بچہ مسلسل روتا چلا جا رہا تھا،سوال ان سے یہی تھا کہ ڈاکٹر کو دکھایا تو کہنے لگیں ہاں دکھایا تو ضرور مگر ڈاکٹر نے کہا کہ کچھ نہیں۔
گزشتہ روز ایک محفل میں باتوں باتوں میں ایک دوست یہ کہہ گئے کہ بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین بند ہونے جا رہا ہے۔ شاید یہ خبر دوستوں کے لیے انہونی نہیں تھی مگر یہ خبر سن کر ذہن کو دھچکا سا لگا۔ بے اختیار زبان سے نکل آیا ”کیا؟“ دوست میری طرف متوجہ ہوئے”کیا ہوا بھائی! انتقال کی خبر تھوڑی سنا دی کہ اس پر ملال ہوا جائے۔“ میرے لیے یہ ملال کی خبر ہو نہ ہو مگر میں جانتا ہوں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں بسنے والے ان افراد کے لیے یہ ملال والی بات ضرور ہوگی جن کے لیے خبروں کا واحد وسیلہ تاحال بی بی سی اردو سروس کا پروگرام سیربین ہی ہے۔
عام طور پر معاشی ترقی کو کسی ملک کے قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس اور کوئلہ کی پیداوار پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدرتی وسائل ترقی کی ایک وجہ تو ضرور ہیں مگر یہ واحد وجہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایسے بہت سے ممالک نے بھی ترقی کی جن کے پاس معدنیات کے ذخائر نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وسائل جو بھی ہوں کسی بھی طریقے سے ملکی پیداوار بڑھانے سے ہی معاشی ترقی ممکن ہے۔ پیداوار بڑھانے سے ہمارے ذہن میں قدرتی وسائل کے بعد سستے مزدوروں کی دستیابی آتی ہے۔ مگر آج کے دور میں سستے مزدور بھی اس قدر اہم نہیں رہے۔ مثال کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کم آبادی اور مہنگے مزدوروں کے ساتھ بھی اپنی پیداوار بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں پیداوار بڑھانے کیلیے سب سے اہم چیز ٹیکنالوجی یا انڈسٹری ہے۔
سورج ڈھل چکا تھا، اور ہم بیلہ سے آواران کے لیے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ سڑک بھی خستہ حال۔ یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان علاقائی نمائندوں کو یہ تکلیف دہ صورتحال نظر کیوں نہیں آتی۔ جوں جوں آگے بڑھے تو ہم نے بیلہ آواران روڈ کو بارونق پایا۔ ہوٹل کھلے ہوئے ملے۔ یہ سب زامیاد گاڑیوں کی آمدورفت اور تیل کے کاروبار کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ وہ روٹ جس پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ویرانی کا راج رہا اس خاموشی کو توڑنے کے لیے ایرانی زامیاد گاڑیوں کے کاروان اپنا کردار نبھا رہے تھے۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیشہ شہروں کی سطح پر منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے اس میں اکثر و بیشتر وہی چہرے، وہی بولیاں اور وہی قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں ماضی میں دیکھتے، سنتے اور دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منتظر نگاہیں جن کی راہیں تک رہی ہیں ہمیشہ سے نظرانداز ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہی نگاہیں جن سے ان کے خواب چھینے جا چکے ہیں ان خوابوں کو دوبارہ پانے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن امیدوں کا جھونکا بن کر آجاتا ہے پھر رفوچکر ہو کر واپس چلا جاتا ہے اور ایک سال کا وقفہ مکمل کرکے دوبارہ خواب دکھانے آجاتا ہے۔
ہم نے اب تک کی سروے میں بلوچستان کا جو تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اس میں نہ صرف طلبا و طالبات کو مشکلات سے دوچار پایا بلکہ حاضر باش اساتذہ کو بھی مشکلات میں گھرا پایا۔ مگر نہ ہی طلبہ کے مسائل کو زیر غور لایا جاتا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے، بلکہ ان مسائل کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے تعلیمی مہم سے متعلق جو ڈیمانڈ ذمہ داران کے سامنے پیش کیے ان میں ٹیچرز کو درپیش مسائل اور ان کا حل بھی شامل تھا۔
ہم کسی اور معاشی اصطلاح سے واقف ہوں نہ ہوں مگر جی ڈی پی کے نام سے ضرور واقف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہر سال بجٹ نشریات میں ہونے والی وہ بحثیں ہیں جنہیں سن کر ہمارے کان پک جاتے ہیں۔ ان مباحث کو سننے کے بعد کیا واقعی ہم اس جی ڈی پی نامی بلا کے رموز سے واقف ہو جاتے ہیں؟یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ یہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (مجموعی ملکی پیداوار) ہے، مگر پیداوار ماپنے کے کئی اقسام ہیں، تو جی ڈی پی پیداوار کی کس طرح کی پیمائش ہے۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ تعلیمی آگاہی مہم سے متعلق اس سے پہلے ہم سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کو کھلا خط ارسال کر چکے ہیں جس میں آواران کی تباہ حال تعلیمی نظام کی پوری منظر کشی کی ہے چونکہ تعلیمی مہم سے متعلق ہماری آپ سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے اس لیے خط کا سہارا لے رہے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کا ذکر آپ بسا اوقات اپنی گفتگو میں کر چکے ہیں۔23 اکتوبر 2019 کو شروع کی جانے والی “بلوچستان ایجوکیشن سسٹم” مہم جو تاحال جاری ہے سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری پیغامات، معلومات، حقائق کی منظرکشی کر کے اب تک ہم جتنا بھی کام کر چکے ہیں اس میں آپ کو اور آپ کی حکومت میں شامل دیگر اراکین کو باخبر رکھنے کے لیے پوسٹوں میں ٹیگ اور مینشن کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ آواران کا وہ تعلیمی منظرنامہ جو آپ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہے، ان حقائق و تکلیف دہ مناظر کی منظرکشی آواران سے نہ سہی دارالخلافہ میں بیٹھ کر حکومتی اراکین کر سکیں۔
میرے گزشتہ کالم یعنی سی پی کے نام پر بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کی دوسری قسط پیش خدمت ہے۔ منگل 26نومبر کے روزنامہ آزادی میں جے یو آئی کے رہنماء سابق وفاقی وزیر پوسٹل سروسز مولانا امیر زمان کے بیان پر نظر پڑی جس میں مولانا موصوف نے بعد از وزارت آج کی تاریخ میں اپنے زر یں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سی پیک میں بلوچستان کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے ان کے بقول یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن حکومت نے اس میں امریکا کو بھی شامل کرنے کی آفر کی ہے جس سے ہماری چین کے ساتھ دوستی متاثر ہو سکتی ہے۔