انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیشہ شہروں کی سطح پر منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرکے اس میں اکثر و بیشتر وہی چہرے، وہی بولیاں اور وہی قصے کہانیاں ہوتی ہیں جنہیں ماضی میں دیکھتے، سنتے اور دہراتے چلے آ رہے ہیں۔ منتظر نگاہیں جن کی راہیں تک رہی ہیں ہمیشہ سے نظرانداز ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہی نگاہیں جن سے ان کے خواب چھینے جا چکے ہیں ان خوابوں کو دوبارہ پانے کی آس لگائے بیٹھی ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمی دن امیدوں کا جھونکا بن کر آجاتا ہے پھر رفوچکر ہو کر واپس چلا جاتا ہے اور ایک سال کا وقفہ مکمل کرکے دوبارہ خواب دکھانے آجاتا ہے۔
ہم نے اب تک کی سروے میں بلوچستان کا جو تعلیمی خاکہ پیش کیا ہے اس میں نہ صرف طلبا و طالبات کو مشکلات سے دوچار پایا بلکہ حاضر باش اساتذہ کو بھی مشکلات میں گھرا پایا۔ مگر نہ ہی طلبہ کے مسائل کو زیر غور لایا جاتا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے، بلکہ ان مسائل کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہم نے تعلیمی مہم سے متعلق جو ڈیمانڈ ذمہ داران کے سامنے پیش کیے ان میں ٹیچرز کو درپیش مسائل اور ان کا حل بھی شامل تھا۔
ہم کسی اور معاشی اصطلاح سے واقف ہوں نہ ہوں مگر جی ڈی پی کے نام سے ضرور واقف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہر سال بجٹ نشریات میں ہونے والی وہ بحثیں ہیں جنہیں سن کر ہمارے کان پک جاتے ہیں۔ ان مباحث کو سننے کے بعد کیا واقعی ہم اس جی ڈی پی نامی بلا کے رموز سے واقف ہو جاتے ہیں؟یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ یہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (مجموعی ملکی پیداوار) ہے، مگر پیداوار ماپنے کے کئی اقسام ہیں، تو جی ڈی پی پیداوار کی کس طرح کی پیمائش ہے۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ تعلیمی آگاہی مہم سے متعلق اس سے پہلے ہم سیکرٹری سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان کو کھلا خط ارسال کر چکے ہیں جس میں آواران کی تباہ حال تعلیمی نظام کی پوری منظر کشی کی ہے چونکہ تعلیمی مہم سے متعلق ہماری آپ سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے اس لیے خط کا سہارا لے رہے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کا ذکر آپ بسا اوقات اپنی گفتگو میں کر چکے ہیں۔23 اکتوبر 2019 کو شروع کی جانے والی “بلوچستان ایجوکیشن سسٹم” مہم جو تاحال جاری ہے سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری پیغامات، معلومات، حقائق کی منظرکشی کر کے اب تک ہم جتنا بھی کام کر چکے ہیں اس میں آپ کو اور آپ کی حکومت میں شامل دیگر اراکین کو باخبر رکھنے کے لیے پوسٹوں میں ٹیگ اور مینشن کرتے چلے آ رہے ہیں تاکہ آواران کا وہ تعلیمی منظرنامہ جو آپ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہے، ان حقائق و تکلیف دہ مناظر کی منظرکشی آواران سے نہ سہی دارالخلافہ میں بیٹھ کر حکومتی اراکین کر سکیں۔
میرے گزشتہ کالم یعنی سی پی کے نام پر بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کی دوسری قسط پیش خدمت ہے۔ منگل 26نومبر کے روزنامہ آزادی میں جے یو آئی کے رہنماء سابق وفاقی وزیر پوسٹل سروسز مولانا امیر زمان کے بیان پر نظر پڑی جس میں مولانا موصوف نے بعد از وزارت آج کی تاریخ میں اپنے زر یں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سی پیک میں بلوچستان کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے ان کے بقول یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن حکومت نے اس میں امریکا کو بھی شامل کرنے کی آفر کی ہے جس سے ہماری چین کے ساتھ دوستی متاثر ہو سکتی ہے۔
عرصہ دراز سے گروپ بندی کا شکار دنیا کا مقبول ترین کھیل زوال پذیر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور ذمہ دار کون ہیں؟ عہدیدار یا وہ کھلاڑی جو معاشی غرض سے کام کاج چھوڑ کر تعلیم کے بجائے اس کھیل کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔پاکستان عالمی درجہ بندی میں 200سے بھی نیچے ہے، لیکن اس کھیل سے متعلق ڈسٹرکٹ یا فیڈریشن پر عرصہ دراز سے براجمان عہدیداروں کو ٹی وی چینل پر کہتے ہوئے کہ پاکستان میں بے پناہ قابلیت ہے سنتے ہوئے یا دیکھا جا سکتا ہے۔
بہار کا موسم ہے، میں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ہوں۔ چڑیوں کی آوازیں کانوں میں رس گول رہی ہیں۔ لیکن یہ سب عارضی ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد بے چینی صاف دکھتی ہے، لوگ پریشان ہیں، خوشیاں ان سے روٹھ گئیں ہیں۔ معاشرے میں قیامت کا سا منظر ہے، لوگوں کا ہجوم ہے۔ مختلف ر نگ نسل و مذہب کے لوگ نظر آ رہے ہیں، اُن میں ایک عجیب نفسا نفسی ہے وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں کوئی حد سے زیادہ امیر تو کوئی حد سے زیادہ غریب، کوئی گاڑیوں میں اے سی لگا کرخوش ہے تو کوئی کچروں کے ڈھیر میں بے سر و سامان پڑا سو رہا ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اخلاق اور انسانیت نے گویا اس معاشرے سے منہ موڑ لیا ہے۔ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جو کسی کے راستے آئے گا بے موت مارا جائے گا۔ لوگ اپنے کاموں میں اس قدر محو ہیں کہ ان کا رابطہ دُنیا سے کٹا ہوانظر آ تا ہے۔
دور ِ حاضر میں مہنگائی کسی اژدہا کی طرح اپنا پھن پلائے غریب عوام کی نصیبوں میں کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے، جہاں وہ سانسیں بھی گن گن کر لیتا ہے کہ کہیں اِن کا بھی حساب نہ دینا پڑے، وہ قدم بھی پھونک پھونک کر اُٹھاتا ہے کہ کوئی موچ نہ آجائے اور اِس فاقے کے زمانے میں جہاں گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے، اسپتال وغیرہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اورمہینے کا بجٹ ڈسٹرب نہ ہو، لیکن اِیسے میں بھی غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھا رہے اور نوجوان پارٹ ٹائم نوکریاں کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کررہے ہیں، اِس اُمید پر کہ ایک نہ ایک دن ان کو سرکاری نوکری ملے گی اور باقی کے دن خوشحال گزرینگے۔
لیوس فیگو، ریکارڈ وکا کا، کارلوس پیول، اور نکلس انلکا کا دورہ پاکستان درحقیقت ایک اچھا اقدام تھا مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ دنیا کے مایہ ناز فٹبالر ز جن سے ملنے کے لیے لوگ ترستے تھے ان کے اصل مداحوں کو ان سے ملنے کے لیے آٹھ ہزارروپے کی ٹکٹ کی شرط رکھی گئی جو کہ ایک فٹبالر طبقہ اور فٹبال کے مداحوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی جوکہ کامیاب تو ہوئی مگر انتظامیہ سو سے زیادہ لوگ جمع نہ کرسکی جوایک شرمناک بات ہے جس کا ریکارڈو کا کا نے لاہور کے میچ کے بعد ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔
کبھی کبھی آپ کا سامنا ایسے کرداروں سے ہوجاتاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا اور وہ کردار آپ کی آنکھوں کے سامنے ایسے کرامات کا مظاہرہ کرتاہے کہ آپ واقعی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وسیلہ پیدا کرنے میں نہ صرف قدرت رکھتاہے بلکہ جس انسان یا مخلوق کو وہ پیدا کرتاہے اسے زندہ رہنے یا زندگی گزارنے کے لیے عقل اور طریقہ بھی ودیعت کرتاہے جسے سمجھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔