|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2019

میرے گزشتہ کالم یعنی سی پی کے نام پر بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کی دوسری قسط پیش خدمت ہے۔ منگل 26نومبر کے روزنامہ آزادی میں جے یو آئی کے رہنماء سابق وفاقی وزیر پوسٹل سروسز مولانا امیر زمان کے بیان پر نظر پڑی جس میں مولانا موصوف نے بعد از وزارت آج کی تاریخ میں اپنے زر یں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سی پیک میں بلوچستان کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے ان کے بقول یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن حکومت نے اس میں امریکا کو بھی شامل کرنے کی آفر کی ہے جس سے ہماری چین کے ساتھ دوستی متاثر ہو سکتی ہے۔

سی پیک کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بلوچستان میں سی پیک کے لئے ایک پیسہ بھی بجٹ میں مختص نہیں کیا گیا ہے جو کہ بلوچستان کے ساتھ سنگین زیادتی اورنا انصافی ہے گوادر پورٹ بلوچستان میں ہے گوادر تک ایکسپورٹ اور امپورٹ کی سہولت موجودہے لیکن ہمیں نظرانداز کیا جارہا ہے جس سے صوبے کے عوام میں احساس محرومی بڑھ رہی ہے۔ ان کے بقول سی پیک کے تحت دیگر صوبوں میں کام ہورہا ہے لیکن ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جارہاہے بلوچستان پسماندہ اور غربت کا شکار صوبہ ہے، بے روزگاری عروج پر ہے لیکن وفاقی حکومت سی پیک کے حوالے سے ہمیں صرف زبانی جمع خرچ سے بہلانے کی کوشش کررہی ہے اور غلط اعدادو شمار پیش کررہی ہے جس سے صوبے کی سیاسی جماعتوں اور عوام کو دھوکہ ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔ چین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان کو اسپیشل اکنامک زون میں خصوصی اہمیت دیتے ہوئے ہمیں پورا پورا حق دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے تمام اسٹیک ہولڈر سی پیک میں صوبے کو نظر انداز کرنے کے خلاف اے پی سی طلب کرنے پر غور کریں۔ جہاں تک سابق وفاقی وزیر کے اس بیان کا تعلق ہے ان کی یہ باتیں دل کو نہیں لگتیں کیونکہ جب ہمارے بلوچستان کے نمائندے وزارتوں سے باہر ہوتے ہیں تو وہ ”بہترین اپوزیشن“ کا کردار ادا کرتے ہوئے بیانات جھاڑتے ہیں اور عوام میں اپنی ساکھ بر قرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسلام آباد کی پر فضا اور مری و نتھیا گلی کی پر رونق قدرتی مناظر میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ انہیں نہ تو بلوچستان کے مفلوک الحال عوام یاد آتے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے مسائل پر لب کشائی یاد آتی ہے، وہ اپنی اپنی وزارتوں میں ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ انہیں کچھ کہتے ہوئے یا بلوچستان کے مسائل پر وفاقی کابینہ یا وزیراعظم کے سامنے بات کرنے کی جرات تک نہیں ہوتی۔

اب میں یہاں اُس وقت کے ڈپٹی چئیرمین سینٹ جے یو آئی کے رہنما ء مولانا عبدالغفور حیدری کا بیان پیش کرتا ہوں کہ موصوف نے کس طرح ڈپٹی چئیرمین سینٹ کے طورپر سی پیک کی حمایت کا بیان دیا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو مولانا صاحبان میں کون درست فرما رہا ہے اور کون غلط بیانی کررہا ہے،یہ فیصلہ میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ یہ صرف جے یو آئی کے رہنماؤں کی بات نہیں،میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ایم این ایز،وفاقی وزراء صاحبان کو بھی موردالزام ٹھہراتا ہوں کہ وہ بھی اسلام آباد جا کر اسلام آباد ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔مولانا غفور حیدری نے چینی سفیر سن وی ڈونگ سے ملاقات میں بات چیت کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی روٹ سی پیک کا حصہ ہے اور سی پیک کے اثرات سے تمام صوبے مستفید ہوں گے۔

پاک چین دوستی مختلف شعبوں میں وسعت پا چکی ہے۔ سی پیک کی بدولت بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ اب ہم مولانا صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات کس بنیاد پر کہی کہ بلوچستان میں نیا دور شروع ہوگا،آیا انہوں نے کسی منصوبے کا افتتاح کیا یا کسی وفاقی ادارے نے انہیں کوئی بریفنگ دی محض پرائیویٹ سیکرٹریوں جو حکومت کے آلہ کار کا کردار ادا کرتے ہیں، کے کہنے پربیان داغ دیا۔یہ امر انتہائی افسوسناک ہے یہی وجہ ہے کہ جب ہم اقتدار میں ہوتے ہیں تو حکومتی فرائض نبھاتے نبھاتے بلوچستان کے مسائل بھول جاتے ہیں اقتدار کے بعد بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے بیانات کی حد تک عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔

آج کل آپ اخبارات پر نظر دوڑائیں تو سابق وزراء اعلیٰ صاحبان ’سابق وزراء صاحبان‘ چاہے صوبائی ہوں یا وفاقی وہ بلوچستان کے طول و عرض میں دورے کرتے ہوئے کارکنوں سے اپنے خطابات میں بلوچستان کے ان مسائل پر رونا روتے ہوئے بلندو بانگ دعوے کرتے ہوئے ملتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیا کچھ نہیں کیا،اب کی حکومتیں کچھ نہیں کررہی ہیں یعنی انہوں نے دودھ اور شہد کی جو نہریں جاری فرمائی تھیں اب وہ سو کھ کر رہ گئیں ہیں۔بلوچستان کے مسائل پر بلوچستان کی سطح پر ہماری سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آتیں، ان کے شخصی اختلاف ان کی ملاقاتوں کے آڑے آجاتی ہیں،انکی انا پرستی ہی ان کی الگ الگ سیاسی جماعتوں کے قیام کا سبب بنا ہے۔ ہر ایک نے شخصی اختلاف کی بناء پر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ چند ایک رہنماء انہیں ”سیاسی مارکیٹ“ میں دستیاب ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنی راہیں الگ کر بیٹھے ہیں۔

مولانا امیر زمان کی یہ بات ان سیاسی رہنماؤں کو ہرگز ایک آنکھ نہیں بھائے گی کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسائل حل نہ کرنے پر مشترکہ آل پارٹیز کانفرنس طلب کریں کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکابرین میں شخصی اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا تو درکنار، ایک دوسرے کی فوتگیوں پر فاتحہ پڑھنے تک گوارا نہیں کرتے، غیروں کے ساتھ انکے ایسے دیرینہ مراسم ہیں کہ واضح نظر آتا ہے کہ وہ ان غیروں کے کس قدر ہمدرد اور دوست ہیں جبکہ اپنوں کے ساتھ ان کی ”خود ساختہ ناراضگی“ انہیں قریب نہیں آنے دیتی۔ ایسے میں آج بلوچستان کی سطح پر خصوصاً بلوچ علاقوں پر نظر دوڑائی جائے تو صاف نظر آتاہے کہ ان علاقوں میں کتنی پارٹیاں بشمول طلباء تنظیمیں جنم لے چکی ہیں کہ اب تو ان کے عہدیداروں کے نام تک یا د نہیں رہتے کہ کون کس پارٹی کا عہدیدار ہے۔ اس وجہ سے ہماراصوبہ لا وارث اور یتیم ہے کہ اس کے عوام کومفلوک الحالی کا ایسا شکار بنادیا گیا ہے کہ اس سے یہ نکل نہیں پارہے۔

دنیا کا سب سے زیادہ معدنی دولت سے مالا صوبہ آج غربت و افلاس کا شکارہے۔ صوبے میں آبنوشی‘ صحت عامہ‘ پختہ سڑکیں‘ تعلیم اور روزگار کے بے پناہ مسائل ہیں کوئی حکومت یا سیاسی جماعت سنجیدگی سے ان مسائل کا ادراک نہیں کرتی جن کا وعدہ وہ اپنے ووٹروں سے کر چکے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گوادر کی دلیر طالبہ نے ”وزیراعلیٰ،سوری خادم اعلیٰ پنجاب“ میاں شہباز شریف سے یہ کہہ دیا کہ کیا وجہ ہے کہ سی پیک تو بلوچستان میں ہے مگر ترقی پنجاب میں ہورہی ہے ”خادم اعلیٰ“ اس دلیر بچی کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ سال 2016ء میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری سمیت چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ صاحبان بشمول مسلم لیگ کے ”ارسطو“ سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال اور چینی حکام کی چین میں پاک چین اقتصادی راہداری کی مشترکہ کمیٹی (جے سی سی) کی بیجنگ میں منعقدہ اجلاس میں بلوچستان میں 12منصوبوں کی منظوری کی نوید سنائی گئی لیکن آج جب ہم ان بارہ منصوبوں پر عمل درآمد اور ان کے لیے مختص فنڈز بارے معلومات لیں تو حقائق اس کے بر خلاف نظر آئیں گے کیونکہ نہ تو مغربی روٹ کے نام پر بلوچستان میں ایک کلو میٹر سڑک تعمیر ہوئی اور نہ ہی دیگر منصوبوں پر عمل درآمد کیاجارہا ہے۔

ترقی کا تمام محور صرف سندھ،پنجاب اور خیبر پختونخوا ہے۔ اب حال ہی میں اسلام آباد میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس کی روائیداد سنیے، اجلاس میں سی پیک کے تحت صرف اور صرف خیبر پختونخوا اور گلگت کے ترقیاتی کاموں بشمول نئی سڑکوں کی تعمیرکے منصوبوں کی منظوری دیتے ہوئے اربوں روپوں کے فنڈ مختص کرنے پر اکتفا کیا گیا،اس میں بلوچستان کے منصوبوں کا دور دور تک نام و نشان نہیں یعنی موجودہ وفاقی حکومت بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچستان کے عوام میں پائی جانے والی محرومیوں میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی اتحادی جماعتیں بی این پی اور دیگر اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کے حوالے سے جو معاہدے کیے گئے ان پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا اور ان پر شنوائی کا فقدان پایاجاتا ہے۔

بلوچستان ستر سالوں سے جس حالت میں ہے اس میں کوئی بہتری نہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ممتازسیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی باتیں آج درست ثابت ہورہی ہیں کہ جس طرح ریکوڈک‘ سیندک‘ سوئی گیس سمیت دیگروسائل سے بلوچ قوم کی حالت نہیں بدلی،اب سی پیک بھی بلوچ قوم کی پسماندگی کا مداوانہیں کر سکے گی بلکہ یہ منصوبہ چین اسلام آباد کے سرمایہ داروں اور پنجاب کے عوام کی خوشحالی و ترقی اور مفادات کے لئے ہوگی۔ چین اور پنجاب کی آبادی کی یلغار سے نہ صرف ہماری قومی شناخت متاثر ہو گی بلکہ ہمارے وسائل بھی حسب روایت لوٹے جائیں گے۔ سی پیک کے نام پر ابھی سے اس کی حدود سے بلوچ آبادی کو بے دخل کیا جارہا ہے ہم یہ کیسے تسلیم کریں کہ سی پیک ہماری ترقی کیلئے ہوگی۔ جمعیت نظریاتی کے رہنماؤں کے بیان کے مطابق صوبے کے تمام وسائل اور ساحل پر پنجاب اور وفاق کا قبضہ ہے وہ نہیں چاہتے کہ غریب صوبہ معاشی حوالے سے پنجاب سے آگے بڑھے۔ بیان کیمطابق یہ عجیب منطق ہے کہ سی پیک پر قربانیاں اور نشانہ بلوچستان اور کے پی کے عوام کو بنایا جاتا ہے جبکہ اس کے ثمرات اور ٹیکنیکل فوائد سے پنجاب اور سندھ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

وفاق کی دہری پالیسیوں سے بلوچستان کے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے اور وہ وفاق کے اعلانات پر بھروسہ نہیں کرتے،ان کے بقول بلوچستان کے عوام کو مزید خوشنما نعروں اور دعوؤں سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ۔حکمرانوں نے ہمیشہ جھوٹے وعدوں اور نعروں سے ورغلایا ہے۔ جمعیت نظریاتی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ڈیرہ اسماعیل خان میں مغربی روٹ کی افتتاحی تقریب پر کہا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے آج یہ بات سچ ثابت ہورہی ہے۔ آج دیگر جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہیں کہ مغربی روٹ کے نام پر بلوچستان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔خود وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ سابقہ حکومتوں میں سی پیک کے نام پربلوچستان میں کوئی کام نہیں ہوا۔اب صورت حال انتہائی واضح ہوچکی ہے بلوچستان اور بلوچ عوام کے حصے میں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں جن کے پیدا کرنے میں جہاں غیروں کا ہاتھ ہے وہاں اپنوں کاکردار بھی نظر آتا ہے۔ ایسے میں جب ہمارے یہ عوامی نمائندے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے بلندوبانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ یہ کس طرح دروغ گوئی سے عوام کے جذبات کو ہمیشہ سے ٹھیس پہنچاتے رہے ہیں اور پہنچاتے رہیں گے۔