کوئٹہ پروجیکٹ ترقی یا اذیت

| وقتِ اشاعت :  


بھیا کے آنکھوں کی چمک، نمی اور چہرے پر تھکن کے اثرات سے میرا دل مضطرب ہوا کہ آج پہلی مرتبہ کئی سالوں بعد بھیا کو اپنی گزشتہ پچیس سالہ محنت پر پانی پھیر جانیکا اندیشہ یقین میں بدلتا نظر آرہا ہے۔



کراچی شہر یا بم کا گولہ۔۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر ایک قدرتی بندرگاہ کے گردشہرکراچی جو جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو رقبے کے حساب سے 3.527مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔دنیا کے بڑے شہروں میں کراچی کا شمار چھٹے نمبر پر ہے جو 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔



اب وہاں ریڈیو سنائی نہیں دیتا

| وقتِ اشاعت :  


جب سے پیدا ہوا ہوں۔ ریڈیو کی آواز سماعتوں کا حصہ رہا ہے،اور کیوں نہ ہو جب گھر میں ریڈیو سننے کا رواج ہو۔ گھر میں ریڈیو سننے کا یہ رواج کب شروع ہوا تھا یہ نہیں معلوم۔۔



لیاری میں تاریکی کے بعد روشنی

| وقتِ اشاعت :  


لیاری جو کئی دہائیوں سے اپنوں کے ہی ہاتھوں کشت و خون میں رنگا رہا اب یہاں ان دنوں کی یاد بھی ایک گناہ کے طور مانی جاتی ہے تاریکی کے بعد جب گلی محلوں سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی ادبی محفلوں اور فنی سرگرمیوں نے لیاری کو اس کی اصل حالت میں رنگنا شروع کیا تو لیاری لٹریچر فیسٹیول کی صورت یہ رنگ قوس قزح کی طرح آسمان پر ایسے بکھرے کہ آج پورے شہر میں ہر زبان عام و خاص پر صرف لیاری کا ہی ذکر ہے۔



”قومی“ میڈیا اور بلوچستان کا گمشدہ مؤقف

| وقتِ اشاعت :  


کوئٹہ پریس کلب کی کینٹین میں بیٹھا اس وقت میرے سامنے اخبارات کی ڈھیر لگی ہے۔ خبروں کی سرخیوں پر نظر دوڑاتا ہوں سب کچھ حسبِ معمول روایتی انداز میں نظر آتا ہے۔ ”روزنامہ جنگ کی صفحات پلٹنا شروع کرتا ہوں اہم خبروں پر نظر جما لیتا ہوں تو اس میں حکومتی و سیاسی بیانات ہی نظر آتے ہیں۔ خبروں پر سرسری نگاہ دوڑانے کے بعد اگلا صفحہ پلٹتا ہوں۔ حسبِ معمول وہی روایتی خبریں، بیانات اور تصویریں ہیں جو آئے روز نگاہوں سے دوچار ہوتی ہیں۔



بلوچستان میں علمی ادبی تحریکوں کی روایت

| وقتِ اشاعت :  


کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ ایک ایسا بھی دور تھا جب بلوچستان سیاسی و ترقی پسند ادبی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جناح روڈ پر جگہ جگہ کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔اب یہ دکانیں برانڈڈ جوتوں یا کھدر کلاتھ کے اعلیٰ مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں، مگر کبھی کبھی ان بچھڑے ہوئے ترقی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں تو پھر سے میرے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔



سید ریفرنس لائبریری افسردہ تھا

| وقتِ اشاعت :  


بیٹھک میں محفل جمی ہوئی تھی ایک شخص محفل کا مرکز و محور تھا۔ محفل میں بیٹھے دیگرافراد اسے واجہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی۔ بندہ اٹھ کر چلا گیا۔ان کے چلے جانے کے بعد محفل کے شرکا ء سے دریافت کیا کہ ”واجہ“ کون تھے؟ تو ایک نے بتایا کہ صبا دشتیاری صاحب تھے، ریفرنس لائبریری کے لیے چندہ کرنے آئے ہیں۔



ریڈیوپاکستان کی بے حسی، انتقال کی خبرکسی خبرنامے میں جگہ نہ پا سکی

| وقتِ اشاعت :  


1980ء؁ کی دہائی تک کا عرصہ ریڈیوپاکستان کا عہد زریں کہلاتا ہے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی“ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پھر چراغوں کی لو مدھم پڑتی چلی گئی۔ بہرحال ریڈیوپاکستان کے مذکورہ عہد زریں میں صوتی دنیا کے افق پرمتعدد درخشاں ستارے نمودار ہوئے اور اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے، انہی میں ایک نمایاں ستارہ ثریاشہاب طویل علالت کے بعد 13ستمبر 2019؁ء کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون!



ٹانگ مت کھنچیں، حوصلہ بڑھائیں

| وقتِ اشاعت :  


نام سے اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ آج کی بات کدھر کو جانی ہے۔ جب آپ کو خود بولنا نہ آتا ہو تو پھر آپ دوسروں کو ہی سنتے اور دیکھتے ہیں۔ بس تو یہی میرا بچپن کا مشغلہ ہے چپ کر کے کسی کونے بیٹھ جانا اور لوگوں کو سننا اور دیکھنا اور پھر اس پر سوچ بچار کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش کرنا۔ اس چکر میں کئی ڈائریاں بنا ڈالیں اور کئی صفحات کالے کیے اور اب تک کر رہی ہوں مگر تلاش ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔