|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2019

جب سے پیدا ہوا ہوں۔ ریڈیو کی آواز سماعتوں کا حصہ رہا ہے،اور کیوں نہ ہو جب گھر میں ریڈیو سننے کا رواج ہو۔ گھر میں ریڈیو سننے کا یہ رواج کب شروع ہوا تھا یہ نہیں معلوم۔۔

لیکن جب سے ہوش سنبھالا تو نانا کو ریڈیو کے ساتھ ہی چپکے پایا۔ ریڈیو کے بغیر نہ ہی صبح کا ناشتہ ہضم ہو پاتا اور نہ ہی رات کا کھانا حلق سے اترتا۔ ریڈیو سے محبت تھی یا خبروں سے عقیدت، یہ عقیدت عمر بھر ان کا دامن چھوڑ نہ پایا۔ آندھی ہو یا طوفان، طوفان کی آواز کم ریڈیو کی آواز زیادہ سنائی دیتی تھی جہاں نانا ابو کا ریڈیو بول رہا ہوں پھر وہاں کسی کی کیا مجال کہ اپنی بول سنا دے۔

یعنی نانا ابو اکیلے ہی ریڈیو نہیں سنتے بلکہ سب کو سنا رہے ہوتے۔ بی بی سی اردو سروس کا ایک گھنٹے کا پروگرام سیربین نانا ابو اس قدر اشتیاق سے سنتے کہ ایک ہی خبر مس نہ ہوجائے اور پوری خبریں ذہن نشین ہو جائیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بسا اوقات ریڈیو کی نشریات کے دوران خلل آجاتا یا ریڈیائی لہریں بھاگ دوڑ میں لگی رہتی تھیں تو ریڈیو کو گھما کر اس کا رخ اسی جانب موڑ لیتے جہاں وہ ریڈیائی لہروں کو دوبارہ پانے میں کامیاب ہوجاتا۔

صبح کے وقت بی بی سی اردو سروس کا پروگرام جہاں نما ہوتا، آدھے گھنٹے کا پروگرام مکمل طور پر یکسوئی کے ساتھ سنتے۔ بی بی سی اردو سروس نے جب اپنا آدھے گھنٹے کا یہ پروگرام ختم کیا تو کئی دنوں تک ہم نے اسے بے چین پایا۔ اگر بی بی سی اردو سروس والوں کو خبر ہوتی تو شاید وہ پروگرام بند نہ کرتے۔ ان سے ایک بار میں نے پوچھا تھا کہ ریڈیو سے وابستگی کب سے ہے تو کہنے لگے بچپن سے۔ عمر کی 9دہائیاں طے کرنے کے باوجود ریڈیو سے ان کی وابستگی ختم نہیں ہوئی۔ شام ہوتے ہی جہاں ان کا چارپائی اور بستر لگ جاتا وہاں ریڈیو کا ہونا لازم و ملزوم قرار پاتا۔

زندگی کے آخری ایام میں جہاں گھر کے اندر ایک تبدیلی یہ آگئی کہ بچے ریڈیو سے اکتا گئے،سولر سسٹم نے ٹی وی تک ان کی رسائی آسان کی۔ ٹی وی کی موجودگی کے باوجود ہم نے اسے ریڈیو کے ساتھ ہی جڑے پایا۔چھٹیوں کے موقع پر جب گھر جانا ہوا، رات کا وقت تھا ریڈیو کی آواز سنائی نہیں دی، وجہ پوچھی تو گھر والے کہنے لگے کہ اب انہیں ریڈیو یاد نہیں رہتا۔ خدا جانے انہیں ریڈیو یاد نہیں رہا یا ریڈیو ان سے خفا ہوگئے تھے اپنی نگاہوں سے ریڈیو سے ایک طویل رشتے کو ٹوٹتے دیکھا مگر ریڈیو کو ان کے کمرے میں ٹنگا ہی پایا۔

طویل خاموشی کے بعد جب وہ ہم سب سے الوداع ہوا تو ریڈیو کو ہم نے اسی مقام پر ہی پایا جہاں آخری بار وہ ریڈیو کی سوئی گھما کر چلے گئے تھے۔ ریڈیو کا اسکرین چیک کیا تو سوئی کو ہم نے بی بی سی کی فریکوینسی پہ ہی پایا۔ لوگ چلے جاتے ہیں چیزیں رہ جاتی ہیں، یادیں رہ جاتی ہیں۔ ریڈیو کو ہم نے ان کی یادوں میں مدغم پایا۔ زندگی میں اس کے دو نشے تھے ایک سگریٹ اور دوسرا ریڈیو۔ گھر والوں کے احتجاج کے سامنے سگریٹ چھوڑ گئے مگر ریڈیو کو چھوڑ نہیں پائے سگریٹ کی جگہ نسوار نے لے لی۔

مگر سگریٹ کی چھوٹ سے قبل وہ اپنے اثرات پھیپھڑوں پر چھوڑ آئے تھے۔ سانس لینا دشوار ہوا۔ تو کراچی کے ہسپتالوں میں زیر علاج رہے۔ ایک شام ان کے پاس بیٹھے بیٹھے 8 بج چکے تھے۔ بی بی سی کا پروگرام سیربین یاد آیا۔ میں نے کہا ”ابا بی بی سی سنو گے؟“۔۔ کہنے لگے سنوں گا تو ضرور، مگر سناؤ گے کیسے؟۔ جیب سے موبائل نکالا اور کہا اس سے۔۔۔ تو پوچھنے لگا اس پہ بھی سنا جاتا ہے کیا؟ جواباً کہا، کیوں نہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی۔ ایک گھنٹے تک کمرے میں سیربین ہی بولتا رہا، باقی خاموشی چھائی رہی ایسے لگ رہا تھا جیسے گزرا ہوا وقت دوبارہ نزول پا رہا ہو۔

سوچتا ہوں وہاں جہاں عبدالستار کی چارپائی ہوا کرتا تھا۔ چارپائی اب بھی موجود ہے مگر عبدالستار نہیں ہیں۔ جہاں ریڈیو سنائی دیتا تھا اب وہاں سب چیزیں پہلے جیسی ہیں۔ مگر ریڈیو کاسامع چلا گیا۔ جاتے جاتے ریڈیو کو تنہا کر گیا۔ ریڈیو اب ان کی راہیں تکتا ہے مگر عبدالستار واپس نہیں آئے گا اور نہ ہی ریڈیو کو کوئی دوسرا ہاتھ لگائے گا۔ نوجوان نسل کے ہاتھ میں موبائل ہے ان کے لیے ریڈیو اب بے معنی سی شے ہے۔

ہمارے ایک اور عزیز تھے عبدالرشید۔۔ شام ہوتے ہی ریڈیو کی آواز سنائی دینے لگتی تھی۔ گھر کی چاردیواری اتنی بڑی تھی کہ پورا محلہ اس میں سما سکتا تھا۔ چاردیواری کے اندر صرف چار کنبے آباد تھے۔ ریڈیو بجتے ہی چاردیواری کے اندر کسی اور کو ریڈیو چلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی صرف عبدالرشید ہی نہیں سن رہے تھے بلکہ چاروں کنبوں کو سنا رہے تھے۔ رات کو ریڈیو عبدالرشید کے پاس ہوا کرتا تھا کرکٹ کا اتنا رسیا نکلا کہ دن کے وقت اس پر میں اپنا قبضہ جما لیتا تھا،اس کے باوجود ان کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ کچھ نہیں کہتے تھے، میرے علاوہ کسی کی مجال کوئی دوسرا ریڈیو کو ہاتھ لگائے۔ ان کے بچے کبھی شکایتیں لے جاتے تھے کہ ہمیں ریڈیو کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے شبیر دن بھر ریڈیو لیے پھرتا ہے۔ تو کہنے لگتے کہ وہ ریڈیو کا استعمال درست طریقے سے کرتا ہے اور تم لوگوں کو ریڈیو کی اکائی تک کا نہیں معلوم۔

کبھی کبھار یوں ہوتا کہ ہم خبروں پر تبصرہ کرنے بیٹھ جاتے۔ آج کیا ہوا کس نے کیا کہا سب کچھ ذہن نشین ہو جاتا۔ ریڈیو کے رسیا تھے۔ نماز چھوٹ جاتی مگر ریڈیو نہیں چھوٹتی۔ کبھی ریڈیو سنتے سنتے اچانک آنکھ لگ جاتی ریڈیو صبح تک چلتا رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ مہینے بھر سیل کا خرچہ زیادہ آجاتا۔ صبح پوچھ لیتے ”پیریں بابا“ رات بھر نیند نہیں آئی کیا، جومحلے بھر کو ریڈیو سناتے رہے۔ تو مسکرا کر کہتے کہ ریڈیو کی آواز ہو ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو تو کسے نیندآئے۔

ایک بار ہوا یوں کہ میں نے بی بی سی اردو سروس پر ایک مضمون لکھ ڈالا۔ مضمون میں عبدالستار کے کمنٹس شامل تھے جبکہ عبدالرشید کو جگہ نہیں دے پایا۔ یاداشت کا یہ حال تھا کہ دو سال بعد جب ملے تو مضمون کا ذکر چھیڑ ڈالا ”نانا کو یاد کیا اور ہمیں بھول بیٹھے“۔۔ میں نے کہا نہیں پیریں بابا ایسی بات نہیں دراصل مضمون کا خیال بیٹھے بیٹھے در آیا۔ عبدالستار کے پاس ہی بیٹھا تھا اس لیے آپ کی باتیں شامل نہیں ہو پائیں۔ تو قہقہہ لگا کر کہنے لگے ”مذاق کر رہا ہوں آپ کا مضمون پڑھابہت مزہ آیا پرانی یادیں در آئیں“۔

میں نے ان سے وعدہ کیا کہ کوئٹہ پہنچتے ہی ان کے لیے رضا علی عابدی کی کتاب ”ریڈیو کی راتیں“ بھیج دوں گا۔۔ تو کہنے لگا ”سونے پہ سہاگہ ہوگا۔ رضا علی عابدی کی آواز سماعتوں سے چُھوٹے ایک زمانہ ہو گیا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر ان کی آواز کو ذہن میں جگا لوں گا“۔ زندگی کے کاموں نے اپنے آپ میں مصروف رکھا کتاب ان تک پہنچ نہیں

پایا مگر ایک خبر مجھ تک ضرور پہنچا کہ عبدالرشید شہید کر دئیے گئے ہیں۔ دل رنجیدہ ہوا آنسو آنکھوں سے رواں ہوئے۔ بوڑھے رشید کی خون کی ضرورت کسے پیش آئی۔ گھر والوں نے کہا کہ شہادت سے قبل وہ ریڈیو سے الوداعی ملاقات کرکے جا چکے تھے۔ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ عبدالرشید ریڈیو سے علیحدہ ہوئے مگر ریڈیو کا عکس اس کے کمرے میں اب بھی نمایاں ہے۔ جہاں وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

وہ مقام جہاں عبدالستار اور عبدالرشید ریڈیو سنا کرتے تھے۔ شب کے آٹھ بج جاتے ہیں مگر سیربین کی آواز سنائی نہیں دیتی ریڈیو سنائی نہیں دیتا۔ بہت سے لوگ جاتے جاتے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں۔ دونوں جاتے جاتے ریڈیو کی آواز اپنی ساتھ لے کر گئے۔ حق مغفرت کرے دونوں کی۔