جام کمال کی اچھی طرز حکمرانی کا عہد

| وقتِ اشاعت :  


کہتے ہیں کہ کبھی شر سے بھی خیر برآمد ہوجاتا ہے ۔ جام کمال خان عالیانی کے صوبے کا وزیراعلیٰ بننے کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں ۔ بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اگرچہ مقتدرہ کی چادر اُوڑھے ہوئے ہیں لیکن ان کی شہرت اچھے انسان اور سیاستدان کی ہے ۔ ا چھی صفات کے حامل ہیں۔



چائے والا اسمبلی پہنچ گیا

| وقتِ اشاعت :  


دھاندلی دھاندلی کی شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی لیکن اگر اس قدر دھاندلی ہوتی تو چائے والا کیونکر کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچ جاتا؟ برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں بھی مجال ہے کہ کوئی چائے والا کامیاب ہو کر دارالعوام میں پہنچ جائے۔ 



جناب وزیر اعظم سردار اختر اور اسلم بھوتانی کی سنیں، نیا پاکستان بنے گا، بھی ایک بھی ہوگا

| وقتِ اشاعت :  


سترہ اگست کا دن کچھ زیادہ مصروف رہا۔ ایک طرف ملک میں وزیر اعظم کا انتخاب ہورہا تھا ،وہیں میں آنے والے نئے ٹی وی چینل کی نئی ٹیم کواپنے ڈائیریکٹر نیوز کی مدد سے انٹرویو کرکے حتمی شکل دے رہا تھا۔ ان انٹرویوز کے دوران ہمیں کچھ وقفے بھی ملے ان وقفوں کے دوران سیاست ،صحافت ،سماج سب کچھ عمران میر صاحب سے ڈسکس ہوتا رہا۔ 



افغان استقلال

| وقتِ اشاعت :  


افغانستان کے امیر حبیب اللہ کے پُر اسرار قتل کے بعد خاندان میں اقتدار کی مختصر رسہ کشی ہوئی ۔نئے امیر کی تاج پوشی کابل کی عید گاہ میں ہوئی ۔ ہزاروں کا مجمع موجود تھا۔حبیب اللہ خان کے بیٹے امان اللہ خان شور بازار کے شاہ آغا کے ہمراہ آئے ۔



بلوچستان حکومت کا مستقبل اور جام کمال کا امتحان

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان اسمبلی کی تقریب حلف برداری کا ایجنڈہ جاری کیا گیا تو اس میں واضح کیا گیا تھا کہ13 اگست کو اراکین کے حلف کے ساتھ ہی سہ پہر کے سیشن میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بھی عمل میں لایا جائیگا لیکن میں ایجنڈہ دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ جام کمال کو مشورے دینے والے بجائے انکی مدد کرنے کے، دن بدن انہیں بند گلی کی طرف کیوں لیجارہے ہیں۔ جام صاحب اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں یہ میرا ذاتی خیال ہے۔



بابا بزنجو جہد مسلسل

| وقتِ اشاعت :  


آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصوصاً بلوچستان کے اندر گزشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اس صورتحال کے تناظر میں دور اندیش رہنماء بابا بزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دوچار ہیں آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑھ ریہ ہیں ان کو دیکھ کر بابا بزنجو کی شدید کمی محسوس کرتے ہیں ۔



پی ٹی آئی کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش کم ہو گی

| وقتِ اشاعت :  


انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ الیکشن 2018 کے سیاسی انجنیئرز معلق پارلیمان چاہتے ہیں۔نواز شریف جیسی اکثریتی جماعت کی حکومت کے مقابلے میں مخلوط حکومت کو قابو میں رکھنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔اب، جبکہ انھوں نے اپنی خواہش کے مطابق نتیجہ حاصل کر لیا ہے،پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)جو اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر تھی،نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی جو طاقت کا قلعہ ہے اکثریت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔



گوادر:انتخابات میں تعلیم کے لیے ووٹ

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے دیگر حلقوں کی نسبت گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کو اس وجہ سے زیادہ اہم قرار دیا جارہا تھا کہ گوادر سی پیک اور پورٹ سٹی کا شہر ہے۔مقتدر حلقے گوادر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں۔جہاں سی پیک پروجیکٹ کے تحت بلین ڈالرز پروجیکٹ کے معاہدوں پر دستخط کے بعد گوادر کے لئے تو کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں نظر آرہا ہے۔مگر یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ گوادر میں بڑے منصوبوں پر کام شروع ہوگا۔



بی این پی کے آپشنز انتخابات کے تناظر میں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں منعقدہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال غور طلب ہے۔ مقتدرہ کا بدستور اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرنا اور حسب روایت انتخابات میں مداخلت نے عوام کے حق رائے دہی کو پامال کیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے عوام نے بھی اپنی رائے کے ذریعے جمہوریت مخالف قوتوں پر واضح انداز میں آشکار کیا کہ وہ ان کے مطلوبہ امیدواروں پر اپنی مرضی کے انتخاب کو ترجیح دیتی ہے۔ 



سیاست کریں، رانگ نمبر ڈائل مت کریں

| وقتِ اشاعت :  


کہتے ہیں کہ سیاست کچھ لو اور کچھ دو کا دوسرا نام ہے۔اس کھیل میں اصولوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور قومی مفادات کو بھی مقدم جانا جاتا ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ عمل صدیوں سے جاری و ساری ہے۔