|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2018

صبح صبح جب اخبار کا صفحہ چھان مار رہا تھا کوئی خوشگوار خبر ملی ہی نہیں کہ دل کا بوجھ ہلکا ہوتا، سوائے چیف جسٹس کے ایک مزاحیہ بیان کے ’’ دو تین گولیاں رکھ کر ایمرجنسی وارڈ بنا دیتے ہیں دوائیں میسر نہیں تو ہسپتال بند کر دیں‘‘۔ 

صفحات پلٹتا چلا گیا نظر جب ادارتی صفحہ پہ پڑی تو ایک کالم بعنوان’’ تھر میں خودکشیاں‘‘ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ کالم کے ایک سطر میں لکھا گیا تھا کہ سندھ کے علاقے تھر میں گزشتہ چند سالوں کے دوران پانچ سو سے زائد بچے مر چکے ہیں اور کم و بیش اتنی ہی خواتین خودکشیاں کر چکی ہیں۔یہ ایک افسوس ناک صورتحال کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ 

میڈیا پہ تھر کے حوالے سے اتنی رپورٹیں نشر یا شائع ہوئی ہیں اور ان رپورٹوں پہ اتنی بار نوٹس لیا جا چکا ہے کہ اب تک تھر کو صحت مند ہونا چاہیے تھا۔ نہ جانے ہمارے حسن مجتبیٰ صاحب کو کیا سوجھتا ہے کہ ملک سے باہر بیٹھ کر تھر اور سندھ کا درد دل میں لیے حالِ دل بیان کرتے رہتے ہیں۔ پھر بھلا ہو روزنامہ جنگ کا کہ اس نے دُور بیٹھے حسن مجتبیٰ کی اس آواز کو اس سینے میں دفن ہونے کے بجائے اپنے ادارتی صفحات پہ جگہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ 

درد دل رکھنے والے چاہے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں لیکن ان کا دل ان کے سرزمین کے لیے ہی دھڑکتا ہے۔ وہ اپنوں کا درد سہتے ہیں۔ پھر انہیں لفظوں کی شکل دے کر قارئین کو سوچنے پہ مجبور کر دیتے ہیں کہ ہمارے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے ہم کیوں بیگانے ہیں؟یہ خاصیت ایک لکھاری اور مفکر کے پاس ہی ہوتا ہے جب وہ لکھتا ہے تو لکھتا ہی چلا جاتا ہے قلم کی نوک یا کمپیوٹر کے کیز ہمہ وقت اس کی انگلیوں کا ساتھ دیتے چلے جاتے ہیں۔ آفرین ہے ایسے لکھاریوں پر۔۔ ورنہ ہم نے دو چار تحریریں کیا لکھ ڈالیں کہ بن گئے دانشور پھر باتیں جھاڑنے کے سوا ہمیں کچھ آتا نہیں لفاظی کرتے رہتے ہیں۔

خودکشی پہ یاد آیا۔۔ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک نجی محفل میں مختلف موضوعات زیرِ بحث آرہے تھے ایک موضوع ختم ہوتے ہی دوسرا شروع ہو جاتا تھا۔ محفل میں بیٹھے ایک صاحب نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان یا تو اچھے اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کی اچھی پوزیشنوں پہ چلے جاتے ہیں۔ یا تو مذاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا باہر ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کے لیے ہر مقام پہ آپشن موجود ہیں۔ نوجوان کبھی بھی مایوسی کی راہوں کا تعین نہیں کرتے اور نہ ہی خودکشی کا خیال ان کے دل میں آتا ہے۔ میں فقط خاموش سنتا ہی رہا۔

کئی سال گزر گئے نہ اب وہ محفلیں ہوتی ہیں نہ تبصرے اور نہ ہی اظہارِ خیال کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں چھائی پراسرار خاموشی کی فضا میں اب وہ محفل ضرور یاد آتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اب کی بار کیوں نہ محفل جما کر ان سے یہی سوال کیا جائے کہ نوجوان خودکشی کی راہوں کا تعین کیوں کر رہے ہیں۔

مکران بلوچستان بھر میں شعور کا حلقہ تصور کیا جاتا ہے۔اب اسی حلقے سے ہی ایسی خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں ہیں کہ جس کا گمان پہلے نہیں ہوتا تھا۔ پنجگور، گوادر، کیچ، آواران سے خودکشی کے واقعات تواتر سے رپورٹ کی جا رہی ہیں۔ حالیہ دنوں مکران میں سیاسی اور انتخابی گہماگہمی اس قدر عروج پا گیا تھا کہ خودکشی کا موضوع پس منظر میں چلا گیا تھا سوائے ایک نوجوان سراوان کے واقعے کے علاوہ دیگر واقعات گمشدہ پیرائیوں میں گمشدہ ہو کر رہ گئے ۔ 

لیکن مذکورہ نوجوان کے واقعے کو تحقیقی بنیادوں پر لینے کی کوشش نہیں کی گئی فقط اشک شوئی کی گئی اور اشک شوئی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ خودکشی کے واقعات کے اصل محرکات کو صحیح بنیادوں پر نہ ہی رپورٹ کیا جا رہا ہے نہ ہی وجوہات زیرِ بحث لائے جا رہے ہیں نہ ہی ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس موضوع کو زیرِ بحث لایا جا رہا ہے اور نہ ہی ممکنہ حل کی طرف جا نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اہلِ مکران کبھی اس طرح بیگانہ تو نہیں تھا آخر ہوا کیا اہلِ مکران کو نظر کس کی لگی؟ ان کے جو سماجی، اخلاقی، شعوری اقدار تھے وہ کہاں گئے۔ وہ اس پر کیوں نہیں سوچتے اور بات کرتے۔ اتنے سہمے سے کیوں ہیں۔

انسانی حقوق کے رہنما و ادیب غنی پرواز مکران میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات کو معاشرتی بیگانگی، لاتعلقی، غربت، بیروزگاری، جنگی حالات، گھریلو حالات اور ان سب کا نتیجہ مایوسی کو قرار دیتے ہیں۔ ایک سال کے دوران خودکشی کے کتنے واقعات ہوئے ہیں؟ اعداد و شمار ان کے پاس دستیاب نہیں ۔

مکران کے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے رجحانات اور واقعات پہ مکران کا باشعور حلقہ بیگانگی کا شکار کیوں ہے۔ اس پر اہلِ مکران کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ بیگانگی کی اس فضا کو توڑنے کے لیے مسیحا آسمان سے نازل نہیں ہوتے۔ زمین زادوں کو ہی کچھ کرنا پڑے گا۔