دنیا بھر میںآج خواتین کا بین الاقوامی دن منایا جارہا ہے آج کے دن جبر وستم کے ستائے، بھوک ، غربت محرومی سے اکتائی خواتین ، دوران زچگی میلوں کا فاصلہ طے کرنے پر مجبور، کاروکاری کی بھینٹ چڑھنے ،وحشیت اور ظلم کا شکار ، دور جدید میں حصول علم سے محروم، کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں توکہیں ثقافتی روایات کے جبر کاشکار خواتین کے حقوق کیلئے حکومت مراعات یافتہ این جی اوز اور سیاسی جماعتیں آزادی نسواں کے نا م پر تقریبات منعقد کر کے ایک دن کیلئے خواتین کی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی نہیں تھکتی ۔
آج سرمایہ داری کی تباہی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپنی انقلابی پیدائش پر سرمایہ داری نے سائنس، ٹیکنالوجی، انفرا اسٹرکچر، حقوق، سماجی رشتوں اور خاندان کی نئی اشکال سے انسانیت کی ایک وسیع آبادی کو جاگیردارانہ تاریکی اور جہالت سے باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہیے ، بلکہ اس فکری دشمن کی شناخت کرنا چاہیے جس سے اصل میں ہمارا سابقہ ہے اور وہ دشمن وہی ہے جو روشن خیالی کی جگہ فکری تنگ نظری اور رواداری کی بجائے مختلف عصبیتوں کی پرورش کرتا ہے اور استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے(سید سبط حسن)۔
بچپن کے جن دنوں عام طور پر بچوں کو سیر تفریح کے مقامات پر لے جایا جاتا ہے ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا، ہماری سیر سندھ کے تمام جیلوں میں ہوئی، والد سہیل سانگی لانڈھی جیل تو کبھی سینٹرل جیل کراچی، ماموں قلندر بخش مہر اور رحیم بخش حیدرآباد کے سینٹرل اور نارا جیل اور چچا جام ساقی کبھی سکھر تو کبھی خیرپور جیل میں ہوتے تھے۔
عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پرہزاروں کی تعداد میں لوگوں نےR.I.P (ان کی روح کو سکون نصیب ہو)لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ،مگر ان الفاظ سے مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
لڑکپن کا دور تھا ،تعلیمی فراغت کے بعد کچھ کرنے کا شوق ذہن میں سر ایت کر چکا تھا،لکھنے کا جنون ہمیشہ سر پر سوار رہتا ،رات بھر جاگ کر،کوشش بسیار کے بعد اپنے تئیں ایک درست اور بامطلب مضمون لکھنے کامہم سر کرنے کے بعد اسکے چھپنے کی خواہش دل میں لیئے اخبارات کا چکر کاٹناجیسے روز مرہ کے شغل کا حصہ بن گیا تھا ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدیق بلوچ صاحب کے انتقال سے بلوچستان کی صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ مدتوں پر نہیں ہوگا،،یہ صرف کہنے کی بات یا لفاظی نہیں ہے،،،یہ وہ بات ہے کہ جو حقیقت پر مبنی ہے،،ان کا انداز صحافت جس طرح کاتھا،،وہ انداز آج کی تیزررفتار زندگی بلکہ صحافت میں خال خال ہی ملتاہے،،،،اور بلوچستان کہ جہاں صحافت صحیح معنوں میں جوئے شیرلاناکے برابر ہے اور۔۔۔صحافت گہہ الفت میں قدم رکھناہے۔۔۔۔۔
منگل 06 فروری کو جب لالا صدیق بلوچ کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر اڑتی ہوئی آئی تو پھر سوشل میڈیا کا رنگ یکسر بدلنے لگا ۔ لوگوں نے لالا کی تصاویر کو اپنا پروفائل بنانا شروع کر دیا اور پھر تعزیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔
صدیق بلوچ ایک ایسا نام جو صحافت خصوصاً بلوچستان کی صحافت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلوچستان کے صحافی اُنہیں ’’لالہ ‘‘اور سندھ کے صحافی ’’ماما‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ لالہ صدیق بلوچ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ کوئٹہ کے صحافیوں کو اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے ۔
جب دستور ساز کمیٹی نے جنوری 1952 میں اردو کو پاکستان کا واحد قومی زبان قرار دینے کی سفارش کی تو اس کے رد عمل میں 21 فروری 1952 کوڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا ء نے بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دلانے کی خاطرجلوس نکالا جس پر پولیس نے فا ئرنگ کی اور 5 طلبا شہید ہو گئے۔