کراچی: سریاب پولیس ٹریننگ سینٹرسانحہ کے بعد اٹھنے والے سوالات جواب طلب ہیں،ٹر یننگ ختم ہونے کے بعد اہلکاروں کو کیونکرواپس سینٹرطلب کیا گیا،دہشت گردی کی اطلاع کے باوجود سینٹر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیوں نہیں کیے گئے ، سانحہ سول ہسپتال کے بعدبھی شہر میں سیکیورٹی کی صورتحال ابترکیوں ہے،ایسے متعدد سوالات اٹھائے جارہے ہیں یقیناجواب طلب ہیں مگر ذمہ دارانہ طریقے سے جواب کون دے گا،ہر سانحہ کے بعد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دی جاتی ہے اور جب تک رپورٹ سامنے آتی ہے تب تک عوام اس سانحہ کو بھول چکے ہونگے
حالیہ دنوں میں ملک کے اِن قابل نوجوانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا جوپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں نت نئے بزنس آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے میں مصروفِ عمل ہیں
پاکستانی معاشرہ قول اور فعل کی تضادات کے سبب بد ترین دوغلاپن کا شکار ہے۔ جس کا سبب مقتدرہ کی روایتی سوچ او ر زمینی حقائق میں بڑھتے فاصلے ہیں ۔حالات یکسر بدل چکے ہیں
مولانا نیاز محمد درانی ؒ پوری زندگی درس وتدریس اور تعلیم و تعلم سے وابستہ رہے۔حدیث نبوی “علم حاصل کرو ماں کی گود سے گور تک”پرپوری زندگی عمل پیرا تھے۔کم عمری میں محلے کی مسجد میں علم کے حصول سے وابستہ ہوگئے تھے۔ابھی سن بلوغت کونہیں پہنچے تھے کہ گھر سے رخت اقامت کیا او رتلاش علم میں کوئٹہ کے علاقے کلی سردہ، سریاب میں اپنے ماموں ملامحمد رحیم صاحب کے گھر میں سکونت اختیار کی جہاں مقامی مدرسہ میں داخل ہونے کا موقع نصیب ہوا ۔یہی وہ مقام ہے
بلوچستان کے تمام رومانوی عشاق شے مرید، حمل، کیا، لٰلہ، عزت، مست توکلی، کمبر، فریاد، بیبگر، دوستین پنوں ، اور شہداد کو اگر کمپوٹر میں ایک خاص سوفٹوئیر کے ساتھ تمام انسانی اقداری خوبیوں کے ساتھ فیڈ کیا جائے تو انکا جو آؤٹ پُٹ نکل کر آئیں گے وہ ماماعبداللہ جان ہیں،
کراچی: ہمارے یہاں حکمرانوں نے ہمیشہ اداروں کو پرائیوٹ کرنے کو محض اس لیے جواز بنارکھا ہے کہ سرکاری سطح پر کرپشن اور لاپرواہی برتی جاتی ہے جس سے ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں، چندماہ قبل جب پی آئی اے کو پرائیوٹ کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتوپی آئی اے کے یونین اور ورکروں کی جانب سے اس کا شدید ردعمل سامنے آیا،
بلوچستان کی نامور علمی ،ادبی اور ترقی پسند سیاست کے سرخیل۔میر عبداﷲ جان جمالدینی پون صدی زبان، علم وادب اور معاشرے کی بھر پور خدمت سرانجام دیتے ہوئے96 سال کی عمر میں 21ستمبر2016ء کی رات ہم سے جسمانی طور پر جداہوگئے۔
بے شمار خوبیوں کو خود میں سموئے، عظیم ساحل سمندر اوراپنے جغرافیائی خدوخیال کی وجہ سے گوادر نہ صرف علاقا ئی بلکہ بین الاقوامی سطح کافی مشہورہوچکا ہے۔یہ بین الاقوامی قوتوں کے توجہ کا مر کز بن چکا ہے کیونکہ مستقبل قریب میں یہ ان کی معاشی ودیگر ضروریات کو پورا کرے گا۔ چین کی جانب سے 46ملین ڈالر کی لاگت سے گوادربندگاہ کی تعمیر ، اقتصادی رہداری، اکنامک کوری ڈور،اور سی پیک منصوبے پر کام تیز سے جاری ہے۔
بلوچستان سیاسی اور انتظامی عجائبات کا صوبہ ہے حالیہ عجوبہ یہ ہے کہ بلوچستان اس وقت پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کے تمام جامعات میں کوئی پرووائس چانسلر موجود نہیں آپ حق بجانب ہونگے اگر کہیں کہ یہ کونسی بڑی بات ہے جب 2013ء کے نگراں دور حکومت میں بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ تھا کہ ایک اکلوتے وزیراعلیٰ نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تن تنہا بلوچستان میں نہ صرف الیکشن کروائے بلکہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب انتخابات کا سہرا بھی سر پہ سجالیا تھا ۔ عام انتخابات کے بعد منتخب وزیراعلیٰ نے پورے پاکستان میں سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیات انتخابات کرانے کا اعلان کردیا اور بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبے کے الیکشن کمشنر نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں اعتراف کیا تھا کہ ’’ہمیں اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کی استداد کی گئی سو ہم نے کردکھایا‘‘
حال ہی میں وفاقی حکومت نے سائبر کرائم بل منظور کیا ہے۔ 29 جولائی2016کو سینٹ میں بل منظور ہوا کہ internetکے ذریعے دہشت گردی پھیلانے کی سزا چودہ سال قید اور پچاس ریحانہ فیروزلاکھ روپے جرمانہ ہوگا اور کسی بے گناہ کو تنگ کرنے یا غیر اخلاقی ‘ غیرقانونی مواد پھیلانے پر سات سال قید ہوگی ۔بل تو منظور ہوگیا کیا عوام اس بل کو مانے گی ؟