شدید سرد رات میں کیچ کی گوریچ اپنے زوروں سے چل رہی تھی کجھور کے درختوں کی آوازیں بند کمروں میں بھی لوگوں کی نیند خراب کررہی تھی، تربت قلعے کی برج پر مکران لیوی کور کے دو سپائی موٹے چادر اھوڈے برج کی دیوار کے ساتھ لپٹے ہوئے پہرہ دے رہے تھے ،
گوادر شہر میں 17 اپریل کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد اب تک مْتاثر ہونے والے علاقوں میں زندگی معمول پر نہ آسکی ہے۔ جگہ جگہ کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس میں ملا فاضل چوک سمیت اہم شاہرائیں شامل ہیں۔ گوکہ بارشوں کے بعد برساتی پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ڈی واٹرنگ آپریشن شروع کردی گئی ہے جس میں جی ڈی اے، ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹی گوادر اِس کی نگرانی کررہے ہیں لیکن متاثرہ علاقے مکین اب تک ڈی واٹرنگ آپریشن سے مطمئن نہیں۔
آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہنرمند افراد کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائشی ہو رہی تھی۔ ایک اسٹال مزری سے بنے آئٹم کا تھا۔
کمبر تیزی سے سفر کرتے ہوئے سامی پہنچ گیا ،قلعے کے قریب بہت رش کش تھا ، طویل سفر کی وجہ سے کمبر کی مشکیزے کے پانی ختم ہوچکے تھے ، مشکیزہ بھرنے کے لیے کجھوروں کے باغ میں گیا وہاں کچھ خادم کام کررہے تھے ، کمبر نے خادموں سے سلام و دعا کرکے… Read more »
مہمان خانے میں کمبر آگ کے قریب بستر پہ لیٹا کبھی مکران کی بغاوت کے بارے میں سوچتا تھا کھبی ماہ گنج اور بلوچ خان کو یاد کرتا تھا ، شادی کے بعد پہلی بار کمبر ماہ گنج سے الگ ہوا تھا ، جب ماہ گنج ہفتوں بعد کچھ وقت کے لیے اپنے ماں کی… Read more »
بکری اڑی۔ سب بچے ہاتھ نیچے کیا کرتے تھے، کوا اڑا۔۔۔ سب کے ہاتھ اوپر۔ ہم سب نے کوئوں (بلوچی میں کلاگ یا گْراگ) کو اڑتے دیکھا اور کائیں کائیں کرتے سنا۔ پہاڑ ان کا مسکن ہوا کرتا تھا خوراک کی تلاش انہیں آبادی کی طرف دھکیل دیا کرتا تھا۔ پہاڑی کوے جسامت اور رنگت… Read more »
کمبر اور ماہ گنج ہر گزرتے دن ایک دوسرے کے مزید دیوانے ہوتے جارہے تھے ، کمبر اپنے والد کے ساتھ باغوں میں ہاتھ بٹھاتا تھا میری اور بلوچ سیاست پر مسلسل گہرا نظر بھی رکھا ہوا تھا ، شادی کے بعد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے کمبر کی جنون ختم نہیں ہوا تھا لیکن مسلع مزاحمت کے لیے کوہی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا ، وہ دن بھی آ گیا کہ ماہ گنج نے ایک بچے کو جنم دیا ، کمبر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، نام رکھنے والے دن گھر میں اجلاس ہوا سمندر خان نے مشورہ دیا کہ نصیر خان رکھ دو ، ماہ گنج نے کہا کہ مجھے چاکر نام بہت پسند ہے ،
گئے زمانے کی خوبصورت یادیں اب بھی دل کو بھاتی ہیں۔ جذبوں، رشتوں کی اقدار اور ان کی بھینی سی خوشبو جب بھی دماغ میں سما جاتی ہے تو سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔۔سکول جانے کے لیے ہمارے پاس سواریاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پون گھنٹہ کا سفر ہم بیدی گاؤں سے پیدل طے کیا کرتے تھے۔ بیدی تک کا سفر پھر بھی ارزاں سمجھا جاتا تھا۔ پیراندر اور تیرتیج کے طلبا کو سکول تک پہنچنے کے لیے سفر کی دہری اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔
رات کے وقت سمندر خان اور جان بی بی گھر میں بیٹھے تھے دروازے پہ دستک ہوئی ، سمندر خان نے دروازہ کھولا کمبر کھڑا تھا ، کمبر کو دیکھتے ہی سمندر خان کی آنسو نکل گئے اور شدت جزبات میں کمبر کو گلے لگاکر اندر لائے ، جان بی بی نے کمبر کی سر کو چھومنا شروع کردیا خود کو دعائیں دیتی رہی اور روتی رہی ، رات دیر تک جان بی بی کمبر سے باتیں کرتی رہی لیکن کمبر بالکل خاموش گم سم بیٹھا تھا