گوادر کو حق دو تحریک سے بلوچستان کو حق دو کے دھرنے سے شہرت پانے والے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے گزشتہ روزکراچی پریس کلب کا دورہ کیا، انھوں نے میٹ دی پریس سے خطاب کیا اور بعد ازاں کراچی پریس کے بلوچ صحافیوں سے ملاقات کی اور بلوچستان کو حق دو تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔
اسلام آباد کی سرکار بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ قانونی و آئینی طور پر محکمہ معدنیات ایک صوبائی معاملہ ہے۔ جس کا فیصلہ صرف بلوچستان حکومت کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کے حوالے نہیں کرسکتی۔
ملک میںبلوچستان پسماندگی اور عدم ترقی کے حوالے سے یقینا مشہور و معروف ہے جہاں سالانہ اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں یا نام نہاد عوامی ترقی پر خرچ ہوتے آ رہے ہیں تاہم نہ تو عوام ان اربوں روپے کی ترقیاتی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے طول و عرض میں ان اربوں روپے کی مد میں ہونے والی ترقی عام وخاص کو نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان ستر سالوں میں جتنی ترقی اور خوشحالی کاغذوں میں کی ہے شاید ہی پاکستان کے کسی دوسرے صوبے نے کی ہو۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کے لیے اعلان کردہ تیل صاف کرنے کے کارخانے (ریفائنری) کا منصوبہ اب سی پیک کا ’’گیٹ وے‘‘کہلائے جانے والے اس شہر کے بجائے کراچی کے قریب بلوچستان کے ساحلی قصبے حب میں منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
مغربی بلوچستان میں ایسا کوئی دن یا ہفتہ نہیں گزرتا کہ کسی بلوچ کو ایرانی حکام پھانسی پرنہ چڑھادیں۔ہر دن، ہرماہ اور ہرسال زندانوں اورسرعام سڑکوں پر پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مہذب دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں بلوچوں کو سڑکوں کے چوراہوں اور بازاروں میں عوام کے سامنے پھانسی دی جاتی ہے۔ جو ایک سفاکیت کی نشانی اور درندگی کی علامت ہے۔
گوادر میں بلوچستان کو حق دوتحریک کے احتجاجی دھرنے کے اختتام پر وزیر اعلیٰ بلوچستان اسٹیج سے اْترنے کے بعد وہاں پر موجود دھرنا کے شرکاء سے گھل مل گئے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دھرنا میں شرکت کرنے والی خواتین سے بھی ملاقات کی اور اْن کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھ گئے۔ خواتین گوادر کے مسائل کے حوالے سے اْن کو اپنا دکھڑا سناتے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خود رو تحریکوں نے سر اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ یہ خود رو تحریکیں شخصیات پر انحصار کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کا جنم اور مرگ ایک حقیقی عمل رہا۔ کیونکہ کوئی بھی تحریک شخصیت کی بنیاد پر نہیں چل سکتی بلکہ تحریکیں تنظیمی ڈھانچوں کی بنیاد پر متحرک اور سرگرم ہوتی ہیں جس سے ان کا مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔
سیاست کو عبادت اور خدمت کا درجہ دینے والے نمائندوں نے ہی اب اسے غیر مہذب اور گالم گلوچ کا پلندہ بنا دیا ہے۔ اب تو حقیقت بیان کرنا یا قلمبند کرنا آ بیل مجھے مارنے کے مترادف بن چکا ہے۔ پاکستان میں اب حقیقی سیاست کی جگہ گالم گلوچ، بدتمیزی اور کردار کشی مکمل طور پر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے۔
وہ مستقبل کی لیڈر تھی یہی خوف ان کے قتل کا سبب بنا۔ بانک اگر زندہ رہتی تو بلوچ تحریک کے پاس ان کی موجودگی میں ایک توانا اور مضبوط اعصاب کے مالک لیڈر موجود ہوتی۔ ان کی شہادت سے بہرحال قیادت کا ایک خلا پیدا کیا گیا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ نے شہادت حاصل کرنے کے بعد بلوچ سماج میں ایک اعلیٰ رتبہ حاصل کیا۔ یقیناً اس کی موت ایک افسوسناک عمل تھا۔ مگر دوسری جانب ایک جرات و بہادری کی علامت بھی تھی۔ اس کے خون نے بلوچ معاشرے میں خواتین اور بچیوں کو ایک اعلیٰ مقام دیا۔ اب تک بے شمار لوگ اپنی بیٹیوں کی پیدائش کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کریمہ کا نام دیتے ہیں۔ یہ نام دراصل شہادت کی علامت ہے جس کو ہر بلوچ قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔