گوادر کا تحصیل جیونی جسے مقامی طورپر جیمڑی کہا جاتا ہے اپنے محل وقوع کی وجہ سے بلوچستان کا امیر ترین علاقہ ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہاں سرحدی کاروبار، ڈیزل اور سمندری راستے سے سال بھر میں سمندری و خشکی کے راستے تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن یہ وہ بدقسمت شہر ہے جہاں کے باشندوں کو پانی مانگنے پر گولیاں ملی ہیں۔ بقول مقامی لوگوں کے کہ یہاں ڈیزل تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا۔ جیونی میں آج سے تیس سال پہلے پانی کے لیے احتجاج کرنے پر لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعے میں تین معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ آج بھی قوم پرست جماعتیں ہر سال اکیس فروری کو شہدائے جیونی کا دن مناتی ہیں مگر انہی قوم پرستوں کی جماعتیں کئی مرتبہ وزارتوں میں آئی ہیں، حکومتوں کے ساتھ رہے ہیں یا اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں لیکن پھر بھی جیونی کو پانی نہ مل سکا۔
بلوچستان میں خود کشی کے واقعات اچانک بڑھنے کی وجوہات میں سرفہرست بڑھتی ہوئی بے روزگاری، عدم معاش، عدم علاج و معالجہ اور مہنگائی سمیتدیگر عوامل شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خودکشی کرنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ حال ہی میں ضلع ڈیرہ بگٹی میں دو خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جبکہ ہر سال سبی، نصیرآباد، لسبیلہ، کیچ، پنجگور، چاغی، خضدار، آواران، گوادر، لورالائی اور کوئٹہ میں بھی خودکشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال بلوچستان میں ایک سے دو سو سے زائد افراد خودکشی کر تے ہیں۔
قارئین کرام۔تیلی کا بیل ایک آدمی بہت بڑا سائنس داں تھا، سائنسی تحقیق کے سلسلے میں کسی سفرپر تھا، راستے میں ایک قصبہ آیا وہاں اس نے دیکھا کہ ایک کولہو چل رہا ہے اور لکڑی کے ستون میں سے تیل نکل رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا، سوچنے لگا کہ یہ کیسی مشین ہے؟ کولہو میں جو بیل چل رہا تھا اس کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوئی تھی۔
گزشتہ جمعرات کے روز ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو بلآخر رہا کردیا گیا، ٹی ایل پی نے اسلام آباد کے فیض آباد میں دھرنا اور احتجاج کرکے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ،اس دوران ٹی ایل پی کے تین سو سے زائد کارکنان گرفتار ہوئے اور بعد میں اْنھیں رہا کردیاگیا۔
ماسی جماعتی کی سر پر ایک تھالی ہے جس میں وہ ٹافیاں، پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ رکھ کر اسکول کے گیٹ پر بیٹھ کر تفریح کے وقت یہ چیزیں بیچتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے بچے ان سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہے “ماشاء اللہ میرے دو بیٹے ہیں دونوں ماہی گیری کرتے ہیں، لیکن سمندر میں کبھی روزگار ہے تو کبھی بچے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ ٹافیاں وغیرہ یہاں آکر بیچتی ہوں تاکہ گزارا ہوجائے”۔ ماسی جماعتی اب سے کئی سال پہلے یہ تھالی سر پر اٹھانے اور ایسے سوداگری کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان کے بقول اس وقت سمندر آباد تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ “ہم سمجھتے تھے سمندر ہماری ماں ہے، ماں کبھی بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سلاتی مگر اب ہمارا سمندر ڈاکوئوں کے حوالے ہے” وہ غیر قانونی جالوں کے استعمال اور ٹرالر مافیا کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہہ رہی ہیں کہ اب ان کی وجہ سے ماہی گیروں کے گھروں کے چولہے بْجھ چکے ہیں۔ اب تو سمندر کو بھی قحط سالی کا سامنا ہے۔
جس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ اس سے بات چیت کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو کجا بلکہ طلبا کو بھی نہیں چھوڑا جارہا ۔ انہیں تعلیمی اداروں سے لاپتہ کیا جارہا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق کی جگہ کتاب ہے۔ آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ مسلح جتھوں کے لئے کچھ اور پالیسیاں جبکہ بلوچ طلبا کے لئے کچھ اور پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے دوطالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیاگیا جس پر طلبا احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طلبا نے ان کی بازیابی کے لئے یونیورسٹی کے مین گیٹ کو تالے لگادیئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے اکیڈمک اور نان اکیڈمک سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیاگیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی پارلیمانی کمیٹی نے طلبا کمیٹی کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ وہ چار دن کے اندر دونوں لاپتہ طلبا کو بازیاب کروائیں گے مگر چار روزگزرنے کے بعد بھی ان کی بازیابی ممکن نہ ہوسکی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم ہے۔ جس کا لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
یہ 19اگست1992ء کی بات ہے کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیربخش مری افغانستان سے آنے والے مری بلوچوں کے استقبال کے لئے دالبندین میں مقیم تھے۔انہی دنوں کراچی میں پنجابی،پشتون اتحاد نے باچا خان ایوارڈ سردار عطاء للہ خان مینگل کو دینے کا اعلان کیا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اپنے جلاوطن مری بلوچوں کے استقبال کو چھوڑ کر کراچی نہیں گئے بلکہ اپنے نمائندے کے طور پر ایوارڈ وصول کرنے کے لئے محمد خان مینگل کونمائندہ مقررکیا۔یہ پروگرام کرائون پلازہ کراچی میں منعقد ہوا ،اسیٹج پر یوسف مستی خان بھی تشریف فرماتھے۔
’’گوادر کو حق دو تحریک ‘‘کے بانی اور سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مظلوم اور محکوم عوام کی آواز بن چکے ہیں۔ وہ ایک شخص سے ایک تحریک کا روپ دھار چکے ہیں۔ وہ قومی جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایک آواز پر پورے بلوچستان کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے گوادر میں ایک تاریخی جلسہ عام کرکے تاریخ رقم کردی۔ اب انہوں نے گوادر کے جی ٹی روڈ پر سینکڑوں افراد کے ساتھ دھرنا دیا ہے۔ یہ دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔
11اگست 1989ء کو میر غوث بخش بزنجو کا انتقال ہوا۔ سردار عطاءاللہ مینگل نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کیلئے لندن سے کراچی پہنچے ۔نواب محمد اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے وہ انہیں اپنے طیارے میں کراچی سے خضدار لائے۔ خضدار سے نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاءاللہ مینگل بذریعہ سڑک نال پہنچے ۔میر غوث بخش بزنجو کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کی ۔میر صاحب کی تدفین اور بعد آخری دعا کے موقع پر میرے دائیں جانب سردار عطاءاللہ مینگل اور بائیں جانب نواب اکبر بگٹی کھڑے تھے ۔نواب بگٹی فاتحہ کے بعد کوئٹہ چلے گئے میں اور سردار عطاءاللہ مینگل تین دنوں تک نال میں میر صاحب کی تعزیت پر بیٹھے رہے ۔
معروف بین الاقوامی میگزین دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ میں 43 ممالک میں افراط زر کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد تھی۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ مزید برآں پی ٹی آئی کی حکومت میںشروع دن سے لے کر اب تک مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے ۔ اب پاکستان میں سب کچھ غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔ تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے چاہے ادویات ہوں، اشیاء خوردوش اور انسانی ضروریات کی دیگر بنیادی چیزیں۔ آئیے ایک نظر نواز شریف اور عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی پر ڈالتے ہیں۔