آئی ایم ’’کہورسٹ‘‘

| وقتِ اشاعت :  


تنظیموں کو شخصیات بناتی ہیں۔ وہی تنظیمیں معاشرے میں اشخاص بناتی ہیں۔ تنظیم سازی اور شخصیت سازی کا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزم ہوتا ہے جس سے معاشرے میں ایک شعوری عمل شروع ہوجاتا ہے۔ فرد کا معاشرے کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ بلوچ معاشرے کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ انہیں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی طلبہ تنظیم مل گئی ہے۔ بی ایس او نے بلوچستان میں ایک سیاسی ڈھانچے کو تشکیل دیا۔ اس سیاسی کلچر نے سیاسی ورکرز پیدا کئے۔بی ایس اواپنے قیام سے لیکراب تک بلوچ تحریک کا ہراول دستہ اور بلوچ سیاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔



چہرہ بدلنے سے نظام نہیں بدلتا

| وقتِ اشاعت :  


جام خاندان اپنی مصلحت پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ اور ہر دور میں اقتدار میں رہاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو اس میں شامل ہوئے، جب (ن) لیگ کی حکومت بنی تو (ن) لیگ میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کا آمرانہ حکومت کا حصہ بنے۔ جمہوری اور غیر جمہوری سب کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے پاس اپنا کوئی سیاسی اور نظریاتی اصول نہیں ہے۔ ان کا اصول صرف اقتدار حاصل کرنے کا اصول رہا ہے یہ کبھی تصادم میں نہیں گئے اور نہ ہی اپنے عوام کی خاطر قیدو بند کی اذیتیں جھیلیں۔لسبیلہ کی مقامی آبادی کو اپنی اطاعت گزاری، تعریف و توصیف پر لگا دیا اور تابعداری کے گْر سکھائے۔



کانچ کاسیاہ غلیظ ٹکڑا

| وقتِ اشاعت :  


ناہمواربھیڑ۔۔۔۔۔۔سڑک پر۔۔۔۔اورلوگوںکے دماغوںمیں،خیال اورواہموںکی صورت میں،زندگی کی علامت کے طورپرچلتارہتاہے۔۔۔بھیڑاَن دیکھے قانون کاپابندہوتاہے اُسے محض صوت سے نسبت ہے ٹھوس وجوداورحکم دینے والا مجسم فردجسے شناخت بھی حاصل ہو،بھیڑکوفوری نوعیت کاکوئی حکم نہیںدے سکتا۔۔۔بھیڑیااژدہام ۔۔۔۔متواتردن کی روشنی اوررات کے دورانیے میں۔۔۔لیکن سڑک پریہ ناہمواربھیڑعشاء کے اذان اورنمازکے بعداورپھیلتا جاتاہے مگرجوان ہوتی رات کی کُھلتی زلفوںکی خوشبوئیںاس کے تنفس پرحملہ آورہوجاتی ہیںاوریہ بھیڑ۔۔۔جس میںموٹرکاریںزیادہ دلآویزوجودرکھتی ہیںآہستہ آہستہ لاپتہ ہوتی جاتی ہیںجیسے خوبصورت بلوچ نوجوان خوابوںکے ریوڑوںکوہانکتے ہانکتے سرسبزچراگاہوںکے سرابوںمیںاترکردن کے ستارے بن جاتے ہیں۔۔۔اورخوابوںکے ریوڑواپس بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے الائوجلائے خوب صورت بلوچ نوجوانوںکے زانوںپرسرٹیک کراپنے گدڑیاکاانتظارکرتی ہیں۔۔۔رات پھرحملہ آورہوتی ہے ۔فصیح اورسہیل سراب میںاترگئے۔



طلباء سیاست اور بلوچ طلباء

| وقتِ اشاعت :  


ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ طلباء درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواؤں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتاً آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوامل کی غمازی کرتے ہیں۔



پاکستان کو حق دو

| وقتِ اشاعت :  


مندرجہ بالا جملہ آج کل اس حد تک عام و خاص کی زبان پر ہے کہ گویا یہاں سب کے حقوق مارے گئے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ یہ اندازہ غلط بھی نہ ہو، کسی کو اس کا حق نہ دینا یا حق کے حقیقی حصہ سے کم دینا بھی حق تلفی ہے، اسی طرح کسی کو اس کی حیثیت اور حصہ سے زیادہ دینا بھی حق تلفی ہے۔ یہ نعرہ اب ایک نعرہ نہیں اظہار غم و الم کا نعرہ بن چکا ہے جو ملک نیک مقاصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاید اس کی خمیر میں کچھ پلید مٹی شامل ہوگئی تھی اس لئے پون صدی عمر پانے کے باوجود پرنالہ اپنی جگہ جوں کا توں بر قرار ہے ۔



گوادر، جیونی کے باسی دہائیوں سے پیاسے۔

| وقتِ اشاعت :  


گوادر کا تحصیل جیونی جسے مقامی طورپر جیمڑی کہا جاتا ہے اپنے محل وقوع کی وجہ سے بلوچستان کا امیر ترین علاقہ ہے۔ ایرانی سرحد کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہاں سرحدی کاروبار، ڈیزل اور سمندری راستے سے سال بھر میں سمندری و خشکی کے راستے تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن یہ وہ بدقسمت شہر ہے جہاں کے باشندوں کو پانی مانگنے پر گولیاں ملی ہیں۔ بقول مقامی لوگوں کے کہ یہاں ڈیزل تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر پانی نہیں ملتا۔ جیونی میں آج سے تیس سال پہلے پانی کے لیے احتجاج کرنے پر لوگوں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ اس واقعے میں تین معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ آج بھی قوم پرست جماعتیں ہر سال اکیس فروری کو شہدائے جیونی کا دن مناتی ہیں مگر انہی قوم پرستوں کی جماعتیں کئی مرتبہ وزارتوں میں آئی ہیں، حکومتوں کے ساتھ رہے ہیں یا اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں لیکن پھر بھی جیونی کو پانی نہ مل سکا۔



بلوچستان میں خودکشی کے اسباب

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں خود کشی کے واقعات اچانک بڑھنے کی وجوہات میں سرفہرست بڑھتی ہوئی بے روزگاری، عدم معاش، عدم علاج و معالجہ اور مہنگائی سمیتدیگر عوامل شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے خودکشی کرنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ حال ہی میں ضلع ڈیرہ بگٹی میں دو خودکشی کے واقعات رونما ہوئے جبکہ ہر سال سبی، نصیرآباد، لسبیلہ، کیچ، پنجگور، چاغی، خضدار، آواران، گوادر، لورالائی اور کوئٹہ میں بھی خودکشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال بلوچستان میں ایک سے دو سو سے زائد افراد خودکشی کر تے ہیں۔



انگریز قتل عام کے علاوہ جہالت کا بھی ذمہ دار ہے

| وقتِ اشاعت :  


قارئین کرام۔تیلی کا بیل ایک آدمی بہت بڑا سائنس داں تھا، سائنسی تحقیق کے سلسلے میں کسی سفرپر تھا، راستے میں ایک قصبہ آیا وہاں اس نے دیکھا کہ ایک کولہو چل رہا ہے اور لکڑی کے ستون میں سے تیل نکل رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا، سوچنے لگا کہ یہ کیسی مشین ہے؟ کولہو میں جو بیل چل رہا تھا اس کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوئی تھی۔



مولانا ہدایت الرحمان کے ”ناجائز” مطالبات

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ جمعرات کے روز ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو بلآخر رہا کردیا گیا، ٹی ایل پی نے اسلام آباد کے فیض آباد میں دھرنا اور احتجاج کرکے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ،اس دوران ٹی ایل پی کے تین سو سے زائد کارکنان گرفتار ہوئے اور بعد میں اْنھیں رہا کردیاگیا۔



سمندر ہماری ماں ہے مگر اب ڈاکوئوں کے حوالے ہے

| وقتِ اشاعت :  


ماسی جماعتی کی سر پر ایک تھالی ہے جس میں وہ ٹافیاں، پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ رکھ کر اسکول کے گیٹ پر بیٹھ کر تفریح کے وقت یہ چیزیں بیچتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے بچے ان سے خوش نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہے “ماشاء اللہ میرے دو بیٹے ہیں دونوں ماہی گیری کرتے ہیں، لیکن سمندر میں کبھی روزگار ہے تو کبھی بچے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ اس لیے میں بھی یہ ٹافیاں وغیرہ یہاں آکر بیچتی ہوں تاکہ گزارا ہوجائے”۔ ماسی جماعتی اب سے کئی سال پہلے یہ تھالی سر پر اٹھانے اور ایسے سوداگری کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ان کے بقول اس وقت سمندر آباد تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ “ہم سمجھتے تھے سمندر ہماری ماں ہے، ماں کبھی بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سلاتی مگر اب ہمارا سمندر ڈاکوئوں کے حوالے ہے” وہ غیر قانونی جالوں کے استعمال اور ٹرالر مافیا کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہہ رہی ہیں کہ اب ان کی وجہ سے ماہی گیروں کے گھروں کے چولہے بْجھ چکے ہیں۔ اب تو سمندر کو بھی قحط سالی کا سامنا ہے۔