اگر منشیات کی بات کی جائے تو پورے بلوچستان میں تیزی سے بڑتی جارہی ہے وڈھ بلوچستان کے پسماندہ ترین تحصیلوں میں شمار ہوتا ہے وڈھ میں پانچ سال پہلے منشیات کے عادی افراد کی تعداد چند ایک تھی اب اگر دیکھا جائے تو وڈھ جیسے پسماندہ علاقہ میں عادی افراد کی تعداد 500سوتک پہنچ گئی ہے تو پورے بلوچستان کی حالت کیاہوگی۔ منشیات کے عادی افراد کو گھر کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی بھائی بہن اور بیوی بچوں کا وہ گھر کے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کام کے اگر ان کو ایک دن نشہ نہیں ملے تو وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں اگر وڈھ کو دیکھا جائے تو وڈھ میں ہر قسم کی منشیات ا?رام سے مل جاتی ہے۔
مافیا کا لفظ یوں تو کئی بار پڑھا ہے لیکن اِس لفظ کی ہیئت اور اِس کے پیچھے کس طرح کی ذہنیت کارفرما رہتی ہے اِس سے اتنی واقفیت نہیں تھی ۔پہلے خیال یہی تھا کہ مافیا اْن لوگوں کا ایک جتھا ہوگا جو علم اور شعور سے عاری ہونگے اْنکے پاس علمی لیاقت اور مشاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی اور وہ انسانی احساسات سے یکسر بے بہرہ ہونگے لیکن جوں جوں وقت آگے بڑھتا چلا گیا تب جاکر یہ سمجھ آیا کہ مافیاتو در اصل پڑھے لکھے اور شعور کی مصنوعی عینک لگائے لوگوں کے اْس گروہ کوبھی کہا جاتا ہے جو اپنے قبیل کے علاوہ کسی بھی دوسری شعوری منطق کو قبول نہیں کرتے یہ ہر اْس چیز کو اپنی بقاء کا کلائمکس سمجھ کر کْشت وخون پربھی اْتر آتے ہیں ۔
دو سال پہلے کی بات ہے جب مجھے فری وقت ملتا تھا تو میں ایک دوست کے نجی سکول میں پڑھاتا تھا۔ وہاں کے بچے بہت ذہین اور اچھے بچے تھے۔ وہاں مہینہ کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ سے بچوں کے سرپرست انکے فیس جمع کرانے کے لئے آتے تھے۔ سکول کے پرنسپل پر چونکہ کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا، تو میں اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ ان سرپرست میں سے ایک جوان سا لڑکا اچھا خاصا قد، بڑے بال، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر مسکان، یعنی بھر پور شباب کا آغاز، صاف ستھرے کپڑے۔
ایرانی زیرتسلط مغربی بلوچستان کے شہر سراوان میں معصوم شہریوں کے قتل عام کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ شہرسراوان میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگادی۔جبکہ سرکاری دفترمیں توڑپھوڑ کی گئی۔گزشتہ روزایرانی فورسز کی فائرنگ سے 37 افراد جان بحق اور 50 زخمی ہو گئے۔ فائرنگ کا واقعہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں سراوان کے سرحدی علاقے حق آباد کے مقام پر پیش آیا۔جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بارڈر پر تیل کے کاروبار سے منسلک افراد سے تھاجو پاک ایران بارڈر پر تجارت کرتے تھے۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ یہ محاورہ ہے۔ تاریخ نے خود کو جس قدر بلوچستان میں دہرایا ہے، شاید ہی کبھی کسی خطے میں دہرایا ہو۔ حالانکہ ہر دور میں بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔حال ہی میں بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں سینیٹر اسحاق بلوچ کے نام سے منسوب کرکٹ اسٹیڈیم کے نام کو نام نہاد قومی میڈیا میں مسخ کرکے پیش کیاگیا۔ ایسا پیش کیاگیا کہ یہ گراؤنڈ حال ہی میں سی پیک منصوبے کے تحت تعمیر کیاگیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ تیس سال قبل گورگیج قبیلہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسحاق بلوچ نے اپنے فنڈز سے یہ گرائونڈ تعمیر کروایا۔
جس معاشرہ میں امن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اس معاشرے میں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔وہاں ظلم و بربریت اور لاقانونیت کا بول بالا ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانی جانوں کو چھلنی کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے وہاں نہ معصوم بچوں پر ترس کھایا جاتا ہے ،نہ ہی عورت کی حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بہن کے جوان بھائی پر رحم کیا جاتا ہے کیونکہ ان ظالم درندوں کو پتا ہوتا ہے کہ پولیس انہیں ہر صورت میں تحفظ فراہم کرے گی اور جتنا ہو سکا انہیں پولیس مدد فراہم کرے گی۔
گر دیکھا جائے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں،سائنسی نقطہ نظر سے جسمانی طور پر ایک جیسے ہیں۔ایک بادشاہ کا بیٹا ہویا ایک مزدور کا،رب کائنات نے کم وپیش تمام اعضاء کے ساتھ انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا۔تمام انسانی رگوں میں خون ہی دوڑتا ہے۔ہر انسان ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے،ہر انسان کی ابتدائی خوراک دودھ ہوتی ہے۔گویا ہر لحاظ سے قدرت نے انسان کو ایک جیسا پیدا کیا۔لیکن سماجی ناہمواری ہر انسان کو الگ الگ کرتی ہے۔بعض بچوں کو موافق ماحول میں اور کچھ کو ناخوشگوار ماحول میں پرورش ملتا ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں مادری زبانوں کا دن منایا جارہاہے،،، بقول رسول حمزہ توف ” زبان وطن ہوتی ہے،، لفظ تاریخ اور جغرافیہ ہیں” ،، زبان شناخت کی سب سے بڑی اکائی ہونے کے ساتھ تہذیبی شناخت ، معاشی خوشحالی اور انسانی ترقی کا اہم ذریعہ ہے،، شعر و شاعری ہو ،، تاریخ ہو،، داستان گوئی ہو یا تہذیب و ثقافت کی قوس قزح ،،، زبان اور اس کے الفاظ پھول کی پنکھڑیوں کی طرح ہیں ،،، اسی طرح پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں بھی ایک ہی مالا کے مختلف موتی ہیں جو الگ الگ ہونے کے باوجودبھی ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
یہ مضمون روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔مضمون کی اہمیت اور’’ 21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ‘‘کی مناسبت سے اسکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ملک میں ’’ واحد قومی نصاب ‘‘(Single National Curriculum )کے فیصلے نے تعلیمی زبان کی بحث پر اہل الرائے(Intelligentia )کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے ما بین تقسیم اتنی شدید ہے کہ با مقصد مکالمہ ممکن نہیں رہا۔ایک سازش کے تحت انگریزی زبان کے حامیوں نے کچھ مسائل کو ایسے بگاڑا کہ انکا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ان مسائل کی وضاحت کے لئے یہ ایک اور کوشش ہے۔
سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کا چئیر مین صدر کے غیر موجودگی میں صدر کا قائم مقام ہوتا ہے۔اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ ہیں۔صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔سینیٹ کے کل 104 ارکان ہیں۔چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔جن میں 14 عمومی ارکان ،4 خواتین،4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔