جس معاشرہ میں امن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اس معاشرے میں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔وہاں ظلم و بربریت اور لاقانونیت کا بول بالا ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانی جانوں کو چھلنی کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے وہاں نہ معصوم بچوں پر ترس کھایا جاتا ہے ،نہ ہی عورت کی حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بہن کے جوان بھائی پر رحم کیا جاتا ہے کیونکہ ان ظالم درندوں کو پتا ہوتا ہے کہ پولیس انہیں ہر صورت میں تحفظ فراہم کرے گی اور جتنا ہو سکا انہیں پولیس مدد فراہم کرے گی۔
گر دیکھا جائے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں،سائنسی نقطہ نظر سے جسمانی طور پر ایک جیسے ہیں۔ایک بادشاہ کا بیٹا ہویا ایک مزدور کا،رب کائنات نے کم وپیش تمام اعضاء کے ساتھ انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا۔تمام انسانی رگوں میں خون ہی دوڑتا ہے۔ہر انسان ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے،ہر انسان کی ابتدائی خوراک دودھ ہوتی ہے۔گویا ہر لحاظ سے قدرت نے انسان کو ایک جیسا پیدا کیا۔لیکن سماجی ناہمواری ہر انسان کو الگ الگ کرتی ہے۔بعض بچوں کو موافق ماحول میں اور کچھ کو ناخوشگوار ماحول میں پرورش ملتا ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں مادری زبانوں کا دن منایا جارہاہے،،، بقول رسول حمزہ توف ” زبان وطن ہوتی ہے،، لفظ تاریخ اور جغرافیہ ہیں” ،، زبان شناخت کی سب سے بڑی اکائی ہونے کے ساتھ تہذیبی شناخت ، معاشی خوشحالی اور انسانی ترقی کا اہم ذریعہ ہے،، شعر و شاعری ہو ،، تاریخ ہو،، داستان گوئی ہو یا تہذیب و ثقافت کی قوس قزح ،،، زبان اور اس کے الفاظ پھول کی پنکھڑیوں کی طرح ہیں ،،، اسی طرح پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں بھی ایک ہی مالا کے مختلف موتی ہیں جو الگ الگ ہونے کے باوجودبھی ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
یہ مضمون روزنامہ ڈان میں شائع ہوا۔مضمون کی اہمیت اور’’ 21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ‘‘کی مناسبت سے اسکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ملک میں ’’ واحد قومی نصاب ‘‘(Single National Curriculum )کے فیصلے نے تعلیمی زبان کی بحث پر اہل الرائے(Intelligentia )کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے ما بین تقسیم اتنی شدید ہے کہ با مقصد مکالمہ ممکن نہیں رہا۔ایک سازش کے تحت انگریزی زبان کے حامیوں نے کچھ مسائل کو ایسے بگاڑا کہ انکا سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ان مسائل کی وضاحت کے لئے یہ ایک اور کوشش ہے۔
سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس کا چئیر مین صدر کے غیر موجودگی میں صدر کا قائم مقام ہوتا ہے۔اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ ہیں۔صادق سنجرانی 12 مارچ 2018 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔سینیٹ کے کل 104 ارکان ہیں۔چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں۔جن میں 14 عمومی ارکان ،4 خواتین،4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔
گزشتہ موسم خزاں میں مودی سرکار کی جانب سے’’ زرعی انقلاب‘‘ کے لیے نئے قوانین کے نفاذ نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر کسانوں کے احتجاج کو جنم دیا۔ اس احتجاج کا مرکز ہندوستان میں زرعی اہمیت کی حامل ریاستیں پنجاب، ہریانہ اور یوپی رہیں۔زرعی بحران ایک اہم مسئلہ ہے، جو صرف بھارت تک مخصوص نہیں، دنیا بھر میںجاری متعدد اقدامات کا مقصد زراعت کو زیادہ موثر بنانا اور غربت اور کاشت کاروں کے مالی انحصار کا مقابلہ کرنا ہے۔جنوبی ایشیا میںملازمتوں کا بڑا حصہ زراعت سے جڑا ہے اور اس کا مختلف ممالک کی GDPمیں اہم کردار ہے۔
بلوچستان ‘‘کے نام سے ہی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بلوچوں کی سرزمین ہے۔ مگر بلوچستان میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں دوسرے اقوام بھی آباد ہیں اگر کسی مباحثے کا موضوع خالصتاً بلوچستان اور نیند ہو تو پھر بھی ہم ضرور سوچتے ہیں کہ نیند کیا ہے کیسے ہوتا ہے اور کیسے نیند سے سکون ملتا ہے۔ بلوچستان میں نیند بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں نیند ہی سکون ہوتا ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جب پورے بلوچستان میں ہمارے نظروں کے سامنے کابلی لمبے لمبے گاڑیوں والے گزرتے ہیں تو ہم سوچتے ہیکہ یہ لوگ بڑے پر سکون زندگی گزارتے ہوں گے ۔
ایک مرتبہ پھر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے میں شدت آگئی ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ایوان صدر پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور عدالت عظمیٰ پاکستان سے چندگز کے فاصلے پر دھرنا دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ فیملیز نے تمام رکاوٹیں توڑ کر تختِ اسلام آباد تک رسائی حاصل کرلی۔ اس مقام کو ڈی چوک کہتے ہیں۔ ڈی چوک ایک بڑا عوامی چوک ہے جو اسلام آباد میں جناح ایونیو اور شارع دستور کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ چوک کئی اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ہے۔ جن میں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، مجلس شوریٰ پاکستان اور عدالت عظمیٰ پاکستان شامل ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ابھی تک ایک بھی شاہراہ ڈبل وے نہیں ہے جبکہ پنجاب ودیگر صوبوں کی زیادہ تر شاہراہیں ڈبل وے ہیں یہ سراسر ظلم ہے جو بلوچستان کے عوام کے ساتھ روارکھاجارہاہے۔حال ہی میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ایک سال کے دوران بلوچستان کے مختلف شاہراہوں پر حادثادث کے سبب سے 8 ہزار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے جبکہ پچھلی دہائی میں دہشتگردی کی وجہ سے مارے گئے افراد کی تعدار 2238 ہے۔
گزشتہ سال 13 فروری کا دن نوشکی سے تعلق رکھنے والے طالب علم سمیع اللہ مینگل کے خاندان سمیت نوشکی و گرد و نواح کے لیے دل خراش یادیں چھوڑ کر چلاگیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں زولوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم سمیع اللہ مینگل کورونا وائرس کے باعث یونیورسٹی بند ہونے پر گھر آئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں اپنی ماں کے گود میں لیں اور پھر ہمیشہ کے لیے درد و الم کی داستان چھوڑ کر چلاگیا۔ یہ واقعہ اس لیے اہمیت کا حامل تھا کیونکہ سمیع اللہ مینگل کا قتل کسی ذاتی یا قبائلی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ نوشکی میں منشیات فروشی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں ہوا۔