امریکا کے صدارتی انتخابات؛ کئی انہونیاں ہوسکتی ہیں

| وقتِ اشاعت :  


2016 میں امریکا کے صدارتی انتخابات سے دس روز قبل انتخابی پیش گوئیاں ہلیری کلنٹن کے حق میں تھیں اور ٹرمپ کی شکست واضح نظر آرہی تھی۔ تاہم یہ پیش گوئیاں بہرحال اندازے ہی تھے اور ووٹر کا فیصلہ بیلٹ باکس سے برآمد ہونا تھا۔ اُن حالات میں بھی میرے آنجہانی دوست فرینک نیومین عمومی فضا کے برخلاف مہینوں پہلے مجھے بتاچکے تھے کہ ٹرمپ صدارتی انتخابات جیت جائے گا۔ امریکا کی مڈویسٹ یا وسط مغربی کہلانے والی ریاستیں مدتوں سے ”ڈیموکریٹ“ تصور کی جاتی ہیں اس لیے ہلیری کلنٹن کا خیال تھا کہ وہاں نتائج جوں کے توں رہیں گے۔



اپوزیشن کو اقتدار چاہیے بس؟

| وقتِ اشاعت :  


کہاجاتاہے کہ چھوٹے ذہن کے رہنما ہمیشہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ سیاست کا مطلب صرف اقتدار ہے اور اقتدار نہیں تو ایسی جمہوریت کی ایسی کی تیسی، نا کھیلیں گے نا کھیلنے دینگے، اتنا تنگ کریں گے حکومت کو کہ یاتو ٹیم میں شامل کردیا جائے ورنہ مارشل لاء لگانے تک کی صورتحال پیدا کردیں گے، جمہوریت کی کشتی ہی ڈبودیں گے پھر فوجی امر کے آگے پیچھے گھومتے تلوے چاٹتے بوٹ پالش کرتے دیکھائی دیتے ہیں، اقتدار کے مزے لوٹنے کی عادت ہوجائے تو پھر بغیر اقتدار کے بغیر پروٹوکول کے بغیر زندگی اس پاکستانی جیسی لگنے لگتی ہے جو در در کی ٹھوکریں باربار کھاتا ہے۔



کہیں نگاہیں کہیں نشانہ

| وقتِ اشاعت :  


پی ڈی ایم جس دن سے قائم ہوئی ہے یہ بات طے ہے کہ اس میں شامل گیارہ جماعتیں اگر اکھٹی رہ سکتی ہیں تو اسکا ایک آسان فارمولہ ہے کہ کسی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نکتوں پر اتفاق کرکے تحریک چلائیں کیونکہ تمام امور پر اتفاق ممکن نہیں اور اگر سب کو تمام امور پر اتفاق پر مجبور کیا جایئگا تو اس الائنس کا شیرازہ بکھر جائیگا،اس اپوزیشن اتحاد میں شامل کوئی جماعت پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں گئی ہے جہاں زور دار تقاریر سے سیاسی حکومت کی نالائقیوں اور ان پر مقتدرہ کی جانب سے چپ سادھے جانے پر اپوزیشن ناراض ہے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہر جماعت اپنی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔



قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں!

| وقتِ اشاعت :  


مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر نے بابائے قوم قائد اعظم کے مزار کی جس طرح کھلی بے ادبی کی اور وہ اس پر کھڑی مسکراتی رہیں، اس واقعے نے ہر پاکستانی کے دل میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ لیکن نوازشریف کے وفا داروں نے اس کی مذمت میں ایک لفظ بھی کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ مزار کے اندر جاکر سیاسی نعرے بازی کرنے اور اس کی حرمت پامال کرنے پر اگلی ہی صبح کیپٹن صفدر کو سندھ پولیس نے مختصر وقت کے لیے گرفتار کیا لیکن بد قسمتی سے قانونی کارروائی مکمل نہیں کی گئی۔
اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ ایسے واقعات دورس نتائج پیدا کرتے ہیں۔



بلوچ اسٹوڈنس کونسل کا پیدل مارچ

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں روز اول سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان میں سردار تعلیم اور ترقی کے خلاف ہیں۔ سرداروں کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کا فقدان ہے۔ سردار تعلیم کے فروغ دینے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب حکومت یہ کھوکھلے دعوے بھی کرتی رہی کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دودھ کی نہریں بہیں۔ تعلیم عام ہو۔ ہر غریب کا بچہ تعلیم یافتہ ہو وغیرہ وغیرہ کے جیسے نعرے لگاتے رہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں تمام سرداروں کو باکردار اور تعلیم دوست قرار دیاگیاکیونکہ تمام کے تمام نواب اور سردار پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ تھے۔



اپوزیشن کا بھاری بیانیہ اور عوام کی چیخیں

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کا آغاز گوجرانوالہ اور کراچی کے بڑے اور کامیاب عوامی اجتماعات سے کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت کو اپوزیشن اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور یہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور کے جلسوں میں بھی اسی طرح لوگوں کا ہجوم امڈ آئے گا اور موجودہ حکمرانوں کو دسمبر دیکھنا نصیب نہیں ہوگا۔ گوجرانوالہ جلسہ عام سے خطاب میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے موجودہ آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنا کر ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔



اپوزیشن اتحاد یا فساد؟

| وقتِ اشاعت :  


وہ کہتے ہیں نا تعلق سے، دوستوں سے،انسان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں تو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ کون کس خاندان سے ہے کس قبیلے سے ہے، کس کا کتنا قریبی تعلق ہے کتنا پرانا تعلق ہے اور کیسا تعلق ہے، کیسا رشتہ ہے، ماضی میں ایک دوسرے کے بارے میں کیسے کیسے خیالات کا اظہارہوتا رہاہے، اور اسی بنیاد پر مستقبل کو دیکھاجاتا ہے، حالات بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن بنیاد کبھی نہیں بدلتی، اب اگر ہم پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ماضی کو دیکھیں، ان کے تعلق کو دیکھیں اور کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی نفرتیں گنناشروع کریں تو کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔



بلوچستان کا یادگار سفر

| وقتِ اشاعت :  


” بلوچستان جارہے ہو! پاگل ہو گئے ہو! کیوں یہ خطرہ مو ل لے ر ہے ہو!نہ جاؤ۔ جاؤ گے گا ڑی میں ا ور آؤ گے اخبار میں “۔ ا ن خدشات کا اظہار کچھ خیرخواہوں نے کیا جب اْن کوجواباً کہا کہ میں کوئی پہلی دفعہ نہیں جارہا تو جواب ملا کہ ” پہلے سرزمین میرے لیے ہمیشہ پْرکشش رہی ہے۔ اسکی وجہ یہاں یہا ں کے باسیوں کی مہمان نوا زی میں لپٹی محبت ا ور خلوص ہے۔ میں پہلے جب بھی بلوچستان گیا تو یہاں گزا رے گئے دنوں میں جو راحت ا ور رات کو میسر آنے والا سکون زندگی میں کہیں نہیں ملا۔یوں یہ تما م خدشات میرے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئے ا ور میں نے رختِ سفر باندھ لیا۔



پرتگیز ایمپائر سے ملک ریاض ایمپائر تک

| وقتِ اشاعت :  


دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف ایمپائرز (سلطنتوں) نے دنیا پر راج کیا۔ جن میں رومی، منگول، یونان، پرتگیز، برٹش وغیرہ شامل ہیں۔ ان سلطنت کے سلطانوں نے دنیا میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی تھی۔ سلطنت کے اندر بہت سے عہدے ہوتے ہیں جن میں بادشاہ، ملکہ، وزیراعظم، وزیردفاع، خزانہ، وزیر افواج، وزیرتعلیم، باندھی، سپاہی اور دیگر بے شمار عہدے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا عہدہ بادشاہ کا ہوتا ہے۔ہمارے خطے میں پرتگیز اور برطانوی راج تھا۔ پرتگیز دنیا کی تاریخ کی پہلی عالمی سلطنت تھی۔ جو جنوبی امریکا، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء تک کے مختلف علاقوں پر قابض تھی۔