آشوبِ پسنی

| وقتِ اشاعت :  


مشہور و معروف بلوچی کلاسیکل گلوکار محمد جاڑوک بلوچ نے مکران کے ساحلی شہر پسنی کوگنگنایا۔ جاڑوک کہتا ہے کہ پسنی کے ریت کو دیکھتا ہوں میرا دل پسنی کا دیوانہ ہوجاتا ہے۔



فرصت

| وقتِ اشاعت :  


سلام سناؤ کیسے ہو، کئی دنوں سے تم سے بات کرنے کا من تھا مگر فرصت ہے کہ ملتی ہی نہیں.. ایسا نہیں ہے کہ تم یاد نہیں ہو مگر اب حالات اور اپنی ذات کے گرداب میں ایسا الجھ گیا ہوں کہ تمہیں فرصت سے یاد کرنے کی فرصت نہیں۔ یوں تو حالات نارمل ہو رہے ہیں مگر جانتے ہو اب حالات کے نارمل ہونے سے بھی ڈر لگتا ہے، اس ابنارمل زندگی کی عادت سی ہو گئی ہے اب تو یہی نارمل ہے۔ عجب حالات و واقعات ہیں باہر بھیڑیوں کی حکومت ہے جو چیر پھاڑ کرنے کو ہر لمحہ تیار ہیں، کوئی محفوظ نہیں سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے… ہر کوئی ڈر رہا ہے، سب گونگے بہرے ہیں بس اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔



*بلوچستان کے سیاست دان سیاسی قزاق یا عوامی رہبر*

| وقتِ اشاعت :  


آزاد بلوچستان کا پاکستان سے الحاق کرنے،ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے لیکر اب تک بلوچستان وفاقی حکومت کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے بلوچستان پر تین بارفوج کشی کرنے کے بعد بھی بلوچستان وفاق کی اولین ترجیحات میں شامل نہ ہو سکا۔ بلوچستان کو کرسی وزارت مراعات اور اقتدار کے کھیل نے ترقی کے بجائے بدحال کر دیا۔ آپ اس امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1970سے لے کر اب تک بلوچستان کو کسی بھی وفاقی حکومت نے اس کا جائز حق تک نہیں دیا۔ بلوچستان کاوفاقی ملازمتوں میں کوٹہ آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ پاکستان سیکرٹریٹ میں بلوچستان کا ایک بھی سیکرٹری تک موجود نہیں۔



آدھا سچ اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ

| وقتِ اشاعت :  


اس وقت ملک میں سیاسی درجہ حرارت یعنی ستمبر میں جون جولائی سے زیادہ گرم ہے اور جو حالات بتارہے ہیں دسمبر کی شدید سردیوں میں ایک تحریک تیار ہوگی یہ تحریک اپوزیشن کی پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کے اتحاد و اتفاق کے صورت میں قائم رہ سکتی ہے۔ مختلف الخیال مختلف نظریات رکھنے والے مذہب،قوم،وفاق و جمہوریت پرست یک نکاتی ایجنڈے پر اکھٹے ہیں کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اب گھر بھیجنا ہے۔ان گیارہ جماعتوں کو ایک اور ایک گیارہ بنایا ہے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے جنکا نام ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن۔



ڈیرہ مراد جمالی کی حالت زار کب بدلے گی

| وقتِ اشاعت :  


ڈیرہ مراد جمالی سے گزرنے والی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اب تو اس کی مرمت بھی نہیں کی جارہی ہے لوگوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔شہر سے گزرنے والی سڑک پر ٹرالرز سمیت بڑی گاڑیوں کی آمدورفت سے شہری شدید ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں دن بھر دھول اڑتی رہتی ہے شہری پریشان حال ہیں کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار تک طویل سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کی تعمیر سے اس سڑک ہر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہو رہی ہے بائی پاس بنانے کی شدید ضرورت ہے لیکن اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ علاقے کے عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی اور غفلت سے علاقے کے مسائل جو ں کے توں ہیں جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے لوگ بھلا کیوں غریبوں کی اصلاح بارے سوچیں گے انہیں صرف اور صرف انتخابات کے دنوں میں علاقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔



بدعنوانی کا شور

| وقتِ اشاعت :  


کووڈ نائنٹین کے دور میں ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے، ایسے میں کچھ دنوں پہلے تاجر برادری نے حکومت کو جگانے کے لیے ہارن بجاؤ حکومت جگاؤ ریلی نکالی اور خوب رونے،دھونے کی ناکام کوشش کی، وہیں دوسری طرف اپوزیشن کا غیر فطری اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ محض موو کے سوا کچھ نہیں نظر آتی۔ ایسے وقت میں



ساحل بلوچستان پر وفاق کا قبضہ اور ہماری ذمہ داریاں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے وسیع وعریض ساحلی پٹی پر ایک طویل عرصہ سے مختلف قسم کے پروجیکٹس جاری ہیں، جیونی سے لیکر گڈانی و ڈام کے ساحل تک کیا سے ہورہاہے شاید ہماری نظروں سے اوجھل ہوں لیکن مستقبل قریب میں ہمارے لیے انتہائی بھیانک ثابت ہونگے۔گوادر جو سی پیک کا مرکز کہلاتا ہے وہاں کے باسی آج بھی ایک بوند پانی کیلئے،بجلی کیلئے اور اس صدی میں ایک جدید سہولیات سے لیس ہسپتال کیلئے ترس رہے ہیں وہاں کے باسیوں کو بجلی کی سہولت دینے،پینے کیلئے صاف پانی فراہم کرنے،اور جدید ہسپتال دینے کیلئے تو پیسہ نہ وفاق کے پاس ہے۔



مکافاتِ عمل یا پھر بلوچستان ہی تبدیلی کا اکھاڑہ*

| وقتِ اشاعت :  


حالات کب اور کیسے بدل جاتے ہیں ان ہی حالات کے کسی کو کوئی خبر یا الحام نہیں ہوتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جو جس طرح کریگا اس کے ساتھ بھی وقت و حالات کے مطابق اسی طرح ہو سکتا ہے بلکہ ہر عمل اور کردار کا ایک ری ایکشن اور جوابی رد عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح 2018 ہی میں نواز شریف کے حکومت کے خلاف اس وقت کے اپوزیشن سمیت طاقتور طبقوں نے ایک مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگی حکومت کو مارچ سے قبل ہی ختم کرنا مقصود تھا کیونکہ مارچ میں ہی ایوان بالا سینٹ کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے اسی وجہ سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ تھا کہ اگر سینٹ میں نواز شریف کو اکثریت مل گئی۔



نوازشریف کی زہر افشانی کے ذمہ دار عمران خان!

| وقتِ اشاعت :  


کچھ رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے، بلکہ وقت کیساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں، روزنامہ آزادی، روزنامہ بلوچستان ایکپریس اور ہفت روزہ ایکسپریس کے خالق مرحوم ماما صدیق بلوچ میرے استادوں میں ہیں، مجھے فخر ہے میں نے ایک عظیم اور خوددار صحافی سے رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ کے مختلف شعبے سیکھے، ان کا ایک انوکھا انداز صحافت تھا اور انکی شخصیت کا دوستانہ انداز انہیں سب میں بہت منفرد کردیتا تھا، وہ ہر موضوع پر بہت گہری اور مختلف انداز میں نظر رکھتے تھے، وہ سوالات اس طرح کرتے تھے کہ جواب دینے والے کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا تھاکہ ماما صدیق بلوچ نے ان سے کیا بات نکلوالی ہے۔



زرداری کا ٹرمپ کارڈ

| وقتِ اشاعت :  


مجھے آصف علی زرداری پر اعتبار نہیں ہے یہ کوئی اور نہیں خواجہ آصف کہہ رہے تھے،ٹائمنگ بہت اہم تھی ابھی تو اے پی سی کی قرار داد بھی تازہ ہے ابھی تو میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر جاری تھیں اور کون نہیں جانتا کہ خواجہ آصف ن لیگ کے اس گروپ میں نمبر ٹو کہے جاسکتے ہیں جس گروپ کے سربراہ میاں شہباز شریف ہیں کیا نیب دفتر سے یہ پیغام آیا تھا یا یہ پہلے طے تھا اور کیا اسکے بعد پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا اہم جزو رہے گی یہ سارے سوال اپنی جگہ پر ہیں۔ آج بات کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اے پی سی میں کیا چاہ رہی تھی کیا ہوا کیسے ہوا اور اب آگے کیا ہوگا؟