|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2014

ہالی ووڈ کی اداکارہ سکارلٹ جوہانسن نے غربِ اردن میں قائم اسرائیلی کمپنی کی حمایت کرنے کے تنازعے پر رفاعی ادارے آکسفیم کی سفیر کی حیثیت سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اداکارہ کے ترجمان نے کہا کہ سکارلٹ جوہانسن کو آکسفیم کے خیالات کے ساتھ، بنیادی اختلاف‘ ہے۔ وہ سوڈا سٹریم نامی اسرائیلی کمپنی کی برانڈ کی سفیر کے طور پر کام جاری رکھے گی۔ سوڈا سٹریم کا مالا آدمیم میں ’غیر قانونی‘ یہودی آبادی میں ایک کارخانہ ہے۔ آکسفیم ان یہودی آبادی سے تجارت کی مخالفت کرتا ہے ۔یہ تجارت بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے لیکن اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ سنہ 1967 میں اسرائیل کی طرف سے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے یہاں 100 سے زائد آبادیوں میں تقریباً 5 لاکھ یہودی آباد ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سکارلٹ جوہانسن کے ترجمان نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ’ہالی ووڈ کی اداکارہ نے آکسفیم کی سفیر کی حیثیت سے آٹھ سال تک کام کرنے کے بعد اسے باعزت طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ آکسفیم نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے جوہانسن کے اپنے عہدے کو چھوڑنے کے فیصلے کو قبول کیا ہے اور وہ ان کی خدمات کی شکر گزار ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ’آکسفیم اپنے سفیروں کی آزادی کی قدر کرتا ہے لیکن جوہانسن کا سوڈا سٹریم کے لیے کام کرنا ان کے آکسفیم کے عالمی سفیر ہونے کے ناطے مناسب نہیں تھا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ’آکسفیم کو یقین ہے کہ سوڈا سٹریم جیسے کاروبار جو یہودی آبادی میں چلائے جاتے ہیں، فلسطینی عوام کی غربت میں اضافے اور ان کے انسانی حقوق کو غصب کرنے کا باعث ہیں۔‘ لیکن سکارلٹ جوہانسن کے ترجمان کی طرف سے جاری میں کہا گیا کہ ’سوڈا سٹریم نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے پل کا کام کر رہی ہے جہاں پڑوسی ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ایک جتنی تنخواہ لیتے ہیں اور جن کے حقوق برابر ہیں۔‘ تاہم خبر رساں ادارے روائٹرز نے ایک بے نام فلسطینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس فیکٹری میں ’نسلی امتیاز برتھا جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ’اکثر مینیجر اسرائیلی ہیں اور غربِ اردن سے تعلق رکھنے والے ملازمین تنخوا بڑھانے کی بات نہیں کرسکتے کیونکہ انھیں آسانی سے فارغ کرکے ان کی جگہ نئے لوگوں کو بھرتی کیا جا سکتا ہے۔‘