|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2014

افغان مہاجرین کا مسئلہ بلوچستان میں زیادہ سنگین ہوگیا ہے عوام الناس مجموعی طور پر mamaوفاقی اور صوبائی حکومت سے ناراض ہیں کہ ریاست افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے شاید حکومت پاکستان یا ریاست پاکستان اب بھی افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو ’’اہم اثاثہ‘‘ سمجھتی ہے اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ان کو پاکستان کے اثرورسوخ میں اضافہ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے افغان مہاجرین کی ملک میں مزید دو سال رہنے کی اجازت کا بھی تعلق اسی مسئلہ سے ہے یا مغربی دنیا اور اقوام متحدہ بھی اس سازش میں ملوث تھے کہ مہاجرین کو مزید دو سال کیلئے رہنے دیا جائے چنانچہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ بہت بڑا فیصلہ تھا یہ عوام الناس اور ریاست کے مفادات کے خلاف تھا لوگ افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے یہ حکومت کو معلوم تھا اور پھر بھی وہ مغربی دنیا اور اقوام متحدہ ادارہ برائے مہاجرین نے دباؤ ڈال کر حکومت کو مجبور کیا کہ افغان مہاجرین کو مزید دو سال پاکستان میں رہنے دیا جائے یہ حکومت کا ایک غیر مقبول فیصلہ ہے جس کو بلوچ عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کسی نے نہیں روکا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی نہ کریں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی تعداد مہاجرین سے زیادہ ہے وفاقی حکومت اس بات کو اہمیت نہیں دیتی گو کہ یہ لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں کلاشنکوف، ہیروئن، اسمگلنگ خصوصاً اسلحہ کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں حالیہ دنوں میں اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث پائے گئے ایک افغانی نے ڈی آئی جی ایف سی کے گھر پر خود کش حملہ کیا تھا جو کوئٹہ کی تاریخ میں تخریب کاری کا ایک بڑا واقعہ تھا صوبائی حکومت کی خاموشی اور اس مسئلے کو نظرانداز کرنا حیران کن ہے ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا کم سے کم ان کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے تاکہ مزید تارکین وطن افغانستان سے بلوچستان کا رخ نہ کریں ان کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مزید تارکین وطن بلوچستان آئیں اور بلوچستان میں لوٹ مار کریں دل چسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کی شاہراہوں پر وہی تارکین وطن گرفتار ہوتے ہیں جو سرحدی محافظین کو رشوت نہیں دیتے اور اپنی رسک پر وہ ایران میں داخل ہونا چاہتے ہیں مگر اکثر افغان مافیا کو استعمال کرتے ہوئے سرحدی گارڈز کو رشوت دیکر ایران میں داخل ہوجاتے ہیں ان کو باعزت طریقے سے محفوظ راستہ اور وی آئی پی کی حیثیت دی جاتی ہے بلکہ مقامی اخبار نویسوں نے زلزلہ کے دوران افغانوں کے ایک سرحدی محافظین کا ایک خصوصی کیمپ دریافت کیا جہاں پر مناسب وقت پر ایران میں داخل ہونے کے لئے ان کو طعام اور قیام کی سہولیات دی جارہی تھیں اگر صوبائی حکومت افغان مہاجرین کے بارے میں بے بس ہے تو وہ افغان غیر قانونی تارکین وطن کیخلاف بھر پور کارروائی کرے ان کیخلاف کارروائی اس وقت تک جاری رہے جس وقت تک تمام غیر قانونی لوگ پاکستان میں موجود ہیں ان کو گرفتار کیا جائے اور سزا میں ان کی جائیداد کی ضبطگی اور طویل قید اور جرمانے کے بعد ان کو پاکستان سے بیدخل کیا جائے یہ پاکستانیوں کا ملک ہے اور یہاں صرف پاکستانی شہریوں کو روزگار حاصل کرنے کا حق ہے غیر قانونی تارکین وطن کو ہیروئن کی دولت سے کاروبار کا حق نہیں ہے نہ ہی وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ بنا سکتے ہیں یہ تمام کام صوبائی حکومت کا ہے اور عوامی نمائندے اس معاملے میں جوابدہ ہیں صوبائی حکومت کافرض ہے کہ وہ پانچ لاکھ افغانیوں جنہوں نے پاکستانی دستاویزات رشوت دیکر بنائے ہیں ان کو منسوخ کرائے جنہوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کئے ان کو فراڈ اور دھوکہ دہی کے کیس میں گرفتار کیا جائے عوام الناس ان پانچ لاکھ شناختی کارڈ ہولڈرز کو پاکستانی تسلیم نہیں کرتے انہوں نے ریاست پاکستان کو دھوکہ دیا ہے اور غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کئے ہیں ان کو گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔