|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2014

گزشتہ دس سالوں میں بلوچستان کو نو بڑے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان قدرتی آفات نے زبردست تباہی پھیلائی جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ۔ ان میں 1990ء کی دہائی میں طویل خشک سالی ‘ بلوچ ساحل پر دو سمندری طوفان ‘ دوبار نصیر آباد کے علاقے سیلاب اور بارشوں سے تباہ ہوئے ۔ ماشکیل اور آواران میں زلزلے۔ آواران میں زلزلہ زدہ علاقوں کو دیکھ کر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان دھنگ رہ گئے کہ ’’ بلوچستان میں اتنی غربت ہے‘‘ ان تمام قدرتی آفات اور لوگوں کو راحتیں پہنچانے میں حکومت کا طرز عمل منفی رہا ۔ ہر بار حکومت نے بیرونی امداد لینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ بیرونی اداروں کو بلوچستان میں داخلے سے روک دیا ، اسی پراکتفا نہیں کیا بلکہ ایک بین الاقوامی اپیل بھی شائع کرادی کہ بلوچستان کے آفت زدگان کو بیرونی ممالک بشمول اقوام متحدہ سے امداد درکار نہیں ہے ۔ البتہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی امداد روانہ کرسکتے ہیں ۔ یہ اتنی ہی نا معقول بات ہے کہ امریکا ‘ برطانیہ ‘ سعودی عرب ‘ ایران امداد نہ دیں بلکہ غریب پاکستانی محنت کش امداد روانہ کریں ۔ وہ کتنی امداد دینے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ آواران کے زلزلے کے دوران این ڈی ایم اے کے سربراہ کوئٹہ آئے ۔ ائیر پورٹ پر انہوں نے مقتدرہ کا یہ فیصلہ سنا دیا کہ آواران کے زلزلہ زدگان کے لئے بین الاقوامی امداد قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس کی حکومت پاکستان کو ضرورت ہے ۔ پاکستان پوری کائنات کا امیر ترین ملک ہے اور آواران کے باشندے پورے خطے میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں، اس لئے ان کو امداد نہیں دی جائے گی ۔ چند ہفتے کھانے پینے کی اشیاء محدود پیمانے پر تقسیم کی گئیں اور بعد میں یہ پیغام دیا گیا کہ آواران کے زلزلہ زدگان کو بھی بھول جائیں ۔ وفاقی حکومت نے چند ارب روپے مختص کیے کہ وہاں لوگوں کے لئے مکانات تعمیر کیے جائیں ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک وفاق کے اس عمل سے مطمئن نظر آتے ہیں شاید انہوں نے اپنا بنیادی مطالبہ ترک کردیا ہے کہ آواران میں تعمیر نو کے لئے بین الاقوامی امداد حاصل کی جائے کیونکہ پاکستان کو آج کل معاشی مشکلات کا سامنا ہے ۔ بہر حال ان آفت زدہ علاقوں سے خوفناک آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔نصیر آباد کے نہری ڈویژن میں صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے ۔ سیلاب کے بعد زیر زمین پانی آلودہ ہوگیا ہے ۔ فوڈ سیکورٹی کیلئے جتنے گودام بنائے گئے تھے وہ سب سیلاب میں گندم کے ذخیروں کے ساتھ تباہ ہوئے ۔ ریاست بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر نہ کر سکا ۔ لوگوں نے اپنے ذاتی مکانات تو خود مرمت کیے مگر اجتماعی نقصانات کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی ۔ مکران میں کاریزات تباہ ہوئیں ان کی آج تک بحالی نہیں ہوسکی نہ ہی حکومت کا یہ ارادہ ہے کہ اجتماعی نقصانات کی تلافی کرے ۔