|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2014

الطاف حسین نے حسب معمول نئے صوبوں کے مطالبے کوانتظامی یونٹس کے ساتھ خلط ملط کردیا ۔ اب ان کا مطالبہ سندھ کی تقسیم نہیں انتظامی یونٹس بنانا ہے ۔ انتظامی یونٹس سے کیا مراد ہے، ان کے لئے ایم کیو ایم کیا اختیارات تجویز کرتی ہے؟ اگر ان سے مراد انتظامی ڈویژن اور اضلاع ہیں وہ تو پہلے سے پورے ملک میں موجود ہیں ۔ اگر ان کو زیادہ اختیارات دے کرکار آمد بنایا جا سکتا ہے تو اس پر کسی بھی شخص اور پارٹی کو اعتراض نہیں ہونا چائیے یا ان کا مقصد سٹی گورنمنٹ ہے تو اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ۔ مگر الطاف حسین ایک ہی سانس میں سندھ سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور پھروڈیرہ شاہی سے نفرت کے نام پر سندھیوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔ انتظامی اختیارات کا ہر شخص اور پارٹی حامی ہے اور اس حد تک حامی ہے جب تک،،قومی صوبوں ،، کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچتا ۔ یہ جائز مطالبہ ہے کہ سرائیکی اور پوٹھوہار صوبے بنائے جائیں ۔ سرائیکی کی اپنی زمین ، اپنی شناخت اور اپنی سرزمین ہے جہاں پر وہ صدیوں سے آباد ہیں اور وہ پنجابیوں سے مختلف ہیں اس لئے ان کی پذیرائی سارے ملک میں ہوتی ہے سوائے ایم کیو ایم کے جو پاکستان میں موجود قومیتوں کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ہندکو بولنے والوں کا بھی یہی حال ہے ۔وہ بھی اسی تعریف میں آتے ہیں اگر کوئی سیاستدان یہ مطالبہ کرتاہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں نئے صوبے بنائے جائیں تو کوئی غلط مطالبہ نہیں ہے ۔ اس لئے ایم کیو ایم کے دوستوں کو اس حمایت پر ناراض نہیں ہونا چائیے ۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کیا وجہ تھی الطاف حسین نے پہلے بیس صوبوں کامطالبہ کیا بعد میں اس میں ترمیم کرکے بیس انتظامی یونٹس میں تبدیل کردیا ۔اسکے بعد اچانک وہ وڈیروں کے خلاف بولنے لگے۔ ہم ان کالموں میں بارہالکھ چکے ہیں کہ موجودہ صوبے قومی صوبے ہیں ۔ ان کی انتظامی حد بندیوں میں تبدیلی ضروری ہے مثلاً افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بلوچستان میں شامل کیا گیا ہے ۔جو غلط ہے ان مفتوحہ علاقوں کو فاٹا اور وزیرستان کا حصہ ہونا چائیے یہ علاقے بلوچستان کے نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر بلوچوں کا کوئی دعویٰ ہے اس لئے ان علاقوں کو فوری طورپر فاٹا میں شامل کیا جائے ۔ دوسری جانب تاریخی طورپر بلوچ علاقے ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد ضلع کو بلوچستان میں شامل کیاجائے ۔ سرائیکی اورہندکو صوبے بنائے جائیں تاکہ پاکستان کے اندر صوبے قومی ہوں ۔ ہر صوبہ اپنی ثقافتی اقلیتوں کا خاص خیال رکھے تاکہ کراچی اور دیگر علاقوں میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کو شکایت نہ ہو ۔ صوبائی حکومتیں جتنی جلد انتظامی یونٹس کو فعال اور مضبوط بناتی ہیں اور اقتدار کی منتقلی نچلی سطح پر لے جاتی ہیں، اتنا ہی بہتر اور عوام کے فائدے میں ہوگا۔