|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2014

دنیا کے پانچ بڑے ممالک اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہوگئے ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات میں ابھی تک خلیج انتہائی وسیع ہے۔ اس کو ابھی تک کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ امریکہ کے صدر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ امام خمینی نے یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ جوہری اسلحہ کا استعمال اسلام میں حرام ہے اس میں ناحق لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس فتویٰ کے باوجود مغربی دنیا کے لوگ ایران اور اس کی لیڈر شپ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ آئی اے ای اے کے بین الاقوامی ادارے نے بھی اسی قسم کی رپورٹ دی ہے۔ ان کو بھی من و عن تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔ اس طرح سے دونوں فریقوں کے درمیان کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اقوام متحدہ کے کچھ ممالک میں چین اور روس بھی شامل ہیں جو جوہری مذاکرات میں ایران کے زیادہ قریب ہیں اور ان کو یہ یقین ہے کہ ایران جوہری اسلحہ نہیں بنارہا ہے اور نہ ہی اس کی کوشش کررہا ہے۔ اسرائیل اور مغربی دنیا ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی اور معاشی قوت سے خائف ہیں اور کسی بھی قیمت پر ایران کے اس فوجی اور معاشی قوت کو توڑنا چاہتے ہیں۔ جوہری مذاکرات مغربی ممالک اور اسرائیل کے لئے ایک بہانہ ہے تاکہ وہ کسی بھی وقت ایران کے خلاف فوجی قوت کا استعمال کرسکیں۔ دوسری جانب ایران معاشی اور فوجی لحاظ سے خطے کا ایک انتہائی مضبوط ملک ہے جس کا پورے خطے میں اثر و رسوخ صاف طور پر نظر آرہا ہے۔ اس میں شام کی صورت حال ہو یا عراق، یمن، لبنان، سعودی عرب، عرب امارات، بحرین اور پاکستان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات صاف نظر آرہے ہیں۔ انہی اثر و رسوخ کی وجہ سے مغربی دنیا اور اسرائیل ایران سے خائف ہیں اور بہانے تلاش کررہے ہیں کہ ایران کی معاشی اور فوجی قوت کو کس طرح سے توڑا جائے۔ ایران پوری طرح مسلح ہے۔ اس کی میزائل اور بحری طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ایرانی جنگی جہاز آبنائے عدن میں ہزاروں تجارتی جہازوں کی حفاظت کررہے ہیں اور ان کو بحری قزاقوں کے حملوں سے بچائے ہوئے ہیں۔ ایران نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس کی بحری افواج کھلے سمندر میں حفاظت پر مامور رہے گی۔ اس سے پہلے یہ کام امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دوسرے بڑے بڑے ممالک کرتے تھے اب یہ کام ایران سرانجام دے رہا ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ دسمبر کے آخر میں وہ کھلے سمندر اور آبنائے ہرمز کے قرب و جوار میں بحری جنگی مشقیں کرے گا۔ دوسری جانب انہی اوقات میں بری افواج بھی پورے ایرانی بلوچستان کے دو لاکھ 50ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں جنگی مشقیں کریں گی۔ یہ سب کچھ ایران کی جانب سے جنگی تیاریوں میں شمار ہوتی ہیں اور کسی حملہ کی صورت ایران تیار اور چاق و چوبند ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کسی بھی بہانے ایران کو خطے کی جنگ میں الجھانا چاہتا ہے ۔ایسی صورت میں یہ جنگ پاکستان کی سرحدوں، خصوصاً پاکستانی بلوچستان کے ساحل میں داخل ہوگی اور پاکستان اس وسیع جنگ کا حصہ بن سکتا ہے۔ 24نومبر کے بعد حالات کس کروٹ جائیں گے؟یہ معلوم نہیں۔