|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2016

لاطینی امریکہ کے علاقے ایکواڈور میں 17اپریل کو آنے والے زلزلے نے ابتدائی رپورٹس کے مطابق 250کے قریب افراد کی جان لی ہے۔ جبکہ 500سے اوپر افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ زلزلے کی شدت 7.8ریکارڑ کی گئی جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے کے مطابق جاپان، ایکواڈوراور ٹونگو میں آنے والے تمام زلزلے دراصل اس وقت فالٹ لائنوں پر آتے ہیں جو بحرالکاہل کے گرد موجود ہیں اسے آگ کا چھلا یعنی رنگ آف فائر کا نام دیا گیا ہے ایکواڈور کے گرد آتش فشاں کی موجودگی ایک گول دائرے کی شکل کا ہے۔اپریل2012 ہی کو جاپان میں آنیوالے زلزلے اور سونامی میں ہلاک ہونے والے 18ہزار افراد کی یاد میں پانچویں برسی منائی جارہی تھی کہ 14اپریل2016 کو زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں 20کے قریب افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اسکے دو روز بعد یعنی ایکواڈور زلزلے سے ایک روز پہلے جاپان ہی میں پیش آنے والے زلزلے میں 20سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ 17اپریل ہی کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور ملحقہ علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے آگئے تھے۔ جبکہ 10اپریل کو پاکستان کے بالائی علاقوں میں زلزلہ آنے سے کئی افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے جبکہ بعض علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ 1935ء کو کوئٹہ زلزلے سے پورا شہرتباہ ہو گیا تھا اس تباہی کے نتیجے میں 60ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ 8اکتوبر 2005کو آزاد کشمیر اور پاکستان کے بالائی علاقوں میں آنے والے زلزلے سے 80ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ 2008کو زیارت میں آنے والے زلزلے سے 160افراد جاں بحق اور 370افراد زخمی ہو گئے تھے۔ 2013ہی کو بلوچستان کے ضلع آواران میں آنے والے زلزلے سے 500کے قریب افراد جاں بحق اور اس سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ 1971ء سے لیکر اب تک پاکستان میں آنے والے معمولی اور شدت کے ساتھ آنے والے زلزلوں کی تعداد 50کے آس پاس بتائی جاتی ہے جس سے ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ گزشتہ سال اپریل ہی میں نیپال میں آنے والے زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیل گئی جسکے نتیجے میں 9ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اکیسویں صدی کا پہلا اور بڑا زلزلہ 2001کو بھارت کے شہر گجرات میں آیا جس کے نتیجے میں 25ہزار سے زائد افراد جان بحق ہو گئے تھے۔ جبکہ دنیا میں آنے والے شدید قسم کے زلزلوں میں 1556کو چین میں آنے والا زلزلہ تھا اس زلزلے کے نتیجے میں 8لاکھ 30ہزار افراد، 1976کو چین ہی میں آنے والے زلزلے سے 2لاکھ43ہزارافراد، 2004کو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں ہونے والے زلزلے سے 2 لاکھ افراد، 1923کو جاپان میں آنے والے زلزلے سے ایک لاکھ 42 ہزار افراد، 2005 ء میں کشمیر و شمالی علاقہ جات میں آنے والے زلزلے سے 86ہزار جبکہ 1908ء کو اٹلی میں آنے والے زلزلے سے 72ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔اگر اس دورانئے کے زلزلوں کے اعداد و شمار اور اس میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو چین کو سرفہرست کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو علاقے زلزلے کے فالٹ لائن پر موجود ہیں ان میں کوئٹہ کا نام سرفہرست ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے سابقہ ریکارڈ بیانات میں یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ ملک میں 7زون ایسے ہیں جنہیں خطرناک قراردیا جاسکتا ہے۔ ان میں شمالی علاقے، جنوبی ساحل مکران، کوئٹہ ریجن اور کشمیر کے علاقے شامل ہیں۔ متحرک فالٹ لائنز کو دیکھتے ہوئے اسے 19زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اگرپاکستان میں دیکھا جائے تو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی زلزلے کے جھٹکوں کی زد میں رہا ہے گزشتہ سال پشاور، لاہور، اسلام آباد ، چترال اور دیگر علاقوں کو زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کوئٹہ کی آبادی 1935کی آبادی سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اور اس آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اب کے بار کوئی شدید قسم کا زلزلہ آگیا تو لاکھوں کے حساب سے جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے۔ کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں نے جہاں ایسے آفات کو قدرتی قرار دیا ہے تو وہیں اس بات کو انسان رد ہی نہیں کر سکتے کہ کرہ ارض پر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں انسان کا اپنا ہی ہاتھ ہے۔ قدرت نے کرہ ارض کو متوازن رکھنے کے لئے نہ صرف یہاں درخت، پانی، جانور، چرند پرند، بڑے بڑے پہاڑ وں کا وجود قائم کیا ہے بلکہ زمین کی خدو خال ، خوبصورتی اور اسکی درجہ حرارت کو برقرار رکنے کے لئے توازن کے عمل کو برقرار رکھا ہے۔ قدرت نے جہاں انسانوں کے فائدے کے لئے یہ ساری چیزیں بنائیں تو وہیں انکے بہترین استعمال کے لئے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا۔ لیکن نہ جانے انسان کو کیا سوجھا اس نے اسکی خوبصورتی کو پامال کیا تو وہیں انسان نے پانی کا بے دریغ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ درختوں کی کٹائی اور فضاء کو آلودہ کرنے کا کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا۔ زیر زمین پانی کی سطح انتہا کو پہنچ گئی آلودگی نے فضاء کو متاثر کیا سانحات جنم لینے لگے جن میں زلزلے اسکی ایک شکل ہے۔ اب تو چیزیں بنی نوع انسان کی دسترس سے نکلتی جا رہی ہیں۔ اب اگر ہم کہیں کہ دنیا کو دہشتگردی سے کہیں زیادہ قدرتی آفات کا سامنا ہے جو ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لے لیتی ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔دوسری جانب اب تک سائنسدان ایسا آلہ ایجاد کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں جو زلزلوں کی آمد سے قبل اسکی اطلاع بنی نوع انسان کو دے سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی سطح زمین سے نیچے چلے جانے کی وجہ سے زمین بھی آہستہ آہستہ بیٹھ رہی ہے جس سے قدرتی آفات زلزلوں، سیلاب اور بارش نہ ہونے کی صورت میں ہماری زندگی متاثرہو رہی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ اقدامات اٹھائے جائیں وہ چیزیں جو کہ قدرتی آفات کا ذریعہ بنتی ہیں ان سے اجتناب بھرتا جائے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو انسان اپنے موت کا سامان خود تیار کر رہا ہے۔ قدرتی آفات اب پوری دنیا کے لئے خطرات کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ اب پوری دنیا کو اس کے لئے فکر مند ہونے کے لئے ہم آواز ہونا چاہئے ۔