|

وقتِ اشاعت :   February 4 – 2017

میں نے پاکستان کے سب سے بڑے چورکو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں لاکھڑاکیا ہے اور اب عدالت کا کام ہے کہ وہ اس پانامہ کیس میں جو فیصلہ سنا دے۔یہ باتیں جناب عمران خان صاحب نے یوم تشکر کے دن کہی تھیں اور ویسے بھی آجکل انصاف غریب اور کمزور پاکستانی کیلئیے گوھر نایاب کی صورت اختیار کر گیا ہے جبکہ امیر اور طاقتور کی دہلیز پر انصاف چوکیداری کے فرائض انجام دے رہا ہے پاکستانی معاشرے کے چند بنیادی مسائل میں ایک مسئلہ انصاف کے حصول کا ہے۔کمزور طبقات کا استحصال دو طرح سے ہوتا ہے۔ اول وہ طاقت ور کے ظلم کا شکار ہو تے ہیں دوئم وہ انصاف کے حصول کے لیے اپنے ہی ریاستی و حکومتی اداروں کے انتقامی رویوں اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔پاکستان میں پولیس اور انصاف کے اداروں میں پائی جانے والی کرپشن،کمزور عدالتی نظام،سیاسی اقرباپروری ،سست روی کے با عث عام لوگوں کو انصاف کے حصول میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق 10کے مطابق حصول انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن ہمارے ملک میںیہ حق صرف امیر اور طاقت ور کو حاصل ہے ۔اور غریب کئی کئی برس تک جیل میں قید رہتا ہے نہ تو اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جاتاہے اور نہ ہی ان کا چا لان عدالتوں میں پیش ہو تا ہے۔ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے نہ تو کہیں جمہوریت نظرآتی ہے اور نہ ہی ہمارے ادارے اسلامی قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔اسلام میں بنیادی طور پر سب انسان برابر ہیں اسلام میں قانون سب کے لیے یکساں اس میں جنس ،رنگ ونسل کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی محض دولت ،رشتے،تعلقات،دوستی اور حتیٰ کہ ہم مذہب یعنی مسلمان ہونے کی بنا پر کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اسلام میں انصاف کا دائرہ عدالت تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں اس کو برتنا اسلام کا تقاضا ہے ۔خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گورنر کو یہ ہدایت فرمائی:اپنی مجلس ،اپنے سلوک اور اپنی عدالت میں لوگوں کے درمیان مساوات قائم رکھنا کہ کوئی طاقت ور تجھ سے بے انصافی کی توقع نہ رکھے اور نہ کوئی کمزور شخص تیرے عدل سے مایوس ہو ۔یہ مساوات کا اتنا بلند معیار ہے کہ دنیا کا کوئی اور نظام اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔بد قسمتی سے ہم اپنے ملک میں فوری، سستا ،بے لچک اور مساویانہ انصاف کا کوئی نظام وضع نہیں کر سکے۔ بلکہ ہمارے ملک میں انگریزوں کا وہ جسٹس سسٹم چل رہا ہے جو انہوں نے ہندوستان کے لوگوں کو محکوم رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ ہمیں اپنے ملک کا نظام تبدیل کرنا ہوگا،انصاف معاشروں کی وہ بنیاد ہوتی ہے جس پر معاشرے کی عمارت استوار ہوتی ہے انصاف انسان کی بڑی اور ناگزیر ضرورت ہے۔دنیا میں1950تک بادشاہوں کا نظام مو جود تھا ،دنیا کے ہر بادشاہ کا بھی انصاف کا کوئی نہ کوئی نظام مو جود تھا اور دنیا کی ہر وہ سلطنت ختم ہوگئی جس میں انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا یا جس میں انصاف تک صرف امراء کو رسائی حاصل تھی۔ہمارے ملک میں انصاف کا ملنا اب بھی ایک خواب ہے ہمیں عدالت کے فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا چاہے جس میں ہماری ذات کو کوئی نقصان پہنچے۔ہمیں ججوں کی تقرر کے لیے ایک آزاد اور خودمختیار کمیشن بنانا ہوگا یہ کمیشن ریٹائرڈ ججوں،ایماندار پروفیسرز اور نیک شہرت کے حامل لوگوں پر مبنی ہو اس کمیشن میں کوئی حکومتی نمائندہ نہ ہو۔انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جوابدہی کے نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔حکومت سمیت سول سوسائٹی سے وابستہ اداروں کو بھی منصفانہ انصاف کے حصول کی بحث کو طاقت بھی دینی ہوگی اور آگے بھی بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ اداروں کی فعالیت کا ایک براہ راست تعلق دباؤ اور نگرانی کی سیاست کے ساتھ بھی جڑاہو تا ہے ۔محض سیاسی نعرے لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے تحقیقی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔کسی بھی معاشرے کا قیام اس کی بقا اور اس کی ترقی کا راز عدل و انصاف کے سنہری اصول میں پوشیدہ ہے۔اس کے بغیر کسی ترقی کا سوچنا سراب کے پیچھے دوڑنا ہے۔