|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2017

امریکہ کے تفتیشی ادارے ایف بی آئی اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سربراہان روس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے درمیان ممکنہ روابط کے بارے میں کانگریس کے سامنے شواہد پیش کریں گے۔ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کا بھی جواب دیں گے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ سابق صدر براک اوباما نے ان کے کالز کی ریکارڈنگ کرائی تھی۔ ایف بی آئی کے ڈائرکٹر جیمز کومی اور این ایس اے کے ایڈمیرل مائک راجرس کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹی کی سماعت کے دوران کھلے عام اپنا موقف رکھیں گے۔ خیال رہے کہ یہ ‘اوپن ہیئرنگ’ شاذ و نادر واقعات میں شامل ہوتی ہے۔ روس انتخابات کو متاثر کرنے کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے جبکہ مسٹر ٹرمپ نے جانچ کو ‘مکمل وچ ہنٹ’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ رواں سال جنوری میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ کریملین کے حمایت یافتہ ہیکرز نے سینیئر ڈیموکریٹ رہنماؤں کے ای میلز تک رسائی حاصل کر لی تھی اور بعض شرمسار کرنے والے میلز کو جاری کر دیا تھا تاکہ مسٹر ٹرمپ کی مسز کلنٹن کو شکست دینے مدد ہو۔ دونوں ایجنسیوں کے سربراہوں کو وائٹ ہاؤس کی کمیٹی کے چیئرمین اور ریپبلیکن رہنما ڈیون نیونس اور ڈیموکریٹ کے ٹاپ اہلکار ایڈم سکف نے مدعو کیا ہے۔ یہ سماعت مقامی وقت کے مطابق سوموار کو دس بجے شروع ہوگی۔ مسٹر نیونس نے اتوار کو دعوی کیا ہے کہ ‘آج صبح تک جن چیزوں میں نے دیکھا ہے اس بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ روس اور ٹرمپ مہم کے درمیان ساز باز کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔’ بہر حال مسٹر سکف نے کہا ہے کہ بہت سے مواد سے واقعاتی شہادت ملتی ہے کہ امریکی شہریوں نے ووٹ کو متاثر کرنے کے لیے روس کے ساتھ ساز باز کیا۔ انھوں نے کہا: ’میل جول کے واقعات شواہد ہیں، میرے خیال سے فریب کے براہ راست شواہد ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’یہ شواہد اتنے ضرور ہیں کہ ان کی بنیاد پر جان کی جائے۔‘ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دو سینیئر اہلکار اٹارنی جنرل جیف سیشن اور قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلن کو اس معاملے میں پکڑا گیا ہے۔ مسٹر سیشن نے خود کو ایف بی آئی کی جانچ سے علیحدہ کر لیا ہے۔ ان پر ڈیموکریٹس کی جانب سے یہ الزام ہے کہ انھوں نے جنوری میں حلف لینے کے باوجود جھوٹی گواہی دی اور کہا کہ ‘روس کے ساتھ ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا’ لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ انھوں نے امریکہ میں روس کے سفیر سرگیئی کسلیاک سے انتخابی مہم کے دوران ملاقات کی تھی۔ مسٹر فلن کو وائٹ ہاؤس سے گذشتہ ماہ اس وقت برخواست کر دیا گیا جب انھوں نے ماسکو کے سفیر سے گفتگو کے بارے وائٹ ہاؤس کو گمراہ کیا۔ انھوں نے مبینہ طور پر امریکی پابندیوں پر بات کی تھی۔ سوموار کو ہونے والی سماعت میں مسٹر ٹرمپ کے اس دعوے پر بھی روشنی پڑے گی کہ اوباما انتظامیہ نے انتخابی مہم کے دوران نیویارک میں قائم ٹرمپ ٹاور کے فون ٹیپ کروائے تھے۔ اس بارے میں مسٹر ٹرمپ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے اور سینیئر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں نے ان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ مسٹر نیونس نے فاکس نیوز کو اتوار کو بتایا کہ وزارت انصاف کے دستاویزات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فون ٹیپ نہیں کیے گئے تھے۔