|

وقتِ اشاعت :   September 15 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پیاز کی درآمد کے فیصلے کے خلاف قرار داد پورے ایوان کی جانب سے منظور کر لی گئی ،بلوچستان ہاؤس کراچی کی توسیع کی قرار داداور کرومائیٹ کی کانوں میں ڈائنا مائیٹ کی عدم فراہمی سے متعلق تحریک التواء بھی منظور کرلی گئیں۔ 

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 50منٹ کی تاخیر سے سپیکر راحیلہ حمید خا ن درانی کی صدارت میں شروع ہوا ، اجلاس کے آغاز پر سپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے پورے ایوان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی رکن ثمینہ خان کو حج کر کے آنے پر مبا رک باد دی ،اجلا س میں صوبائی وزیر داخلہ کی غیر موجود گی پر وقفہ سوالات موخر کردیا گیا ،مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی ثمینہ خان نے پوائنٹ آف آڈر پر اظہار خیا ل کر تے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کے اےئر پورٹ روڈ پر واقع چلتن ہا ؤسنگ اسکیم میں گزشتہ شب دو گھروں می ڈکیتی کی واردا ت ہوئی اور شہریوں کو نقدی اور قیمتی اشیاء سے محروم کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سروے 144اور چلتن ہا ؤسنگ اسکیموں کا شمار کوئٹہ کی سب سے محفوظ رہا ئشی اسکیمات میں ہوتا ہے اور اگر چلتن ہا ؤسنگ اسکیم واقع پر وزیر داخلہ کو نوٹس لے کر اسکی معلو مات حاصل کرنی چائیے ہیں اور وہاں پر پولیس کو تعینات کیا جائے ۔

پشتو نخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چےئر مین مجید خان اچکزئی نے کہا وزیر داخلہ گزشتہ دو ماہ کے دوران کوئٹہ میں ہو نیوالے جرائم کے واقعات سے متعلق ایوان کو آگاہ کریں جس پر سپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے ایوان کو مسئلے پر وزیر داخلہ سے تفصیلا ت معلوم کر کے آگا ہ کر نے کی یقین دہا نی کروائی ۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلا م کے رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپوزیشن لیڈر مو لانا عبدالوسع کی تحریک التواء پیش کر تے ہوئے کہا کہ ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ میں پائی جانے والی کرومائیٹ کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے ذخائر میں ہوتا ہے اور وہاں کے عوام کی معیشت کا دارومدار کان کنی سے وابستہ ہے چونکہ کانکنی کیلئے ڈائنامائیٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن گزشتہ چھ ماہ سے ڈائنا مائیٹ لائسنس بحال نہ ہونے کے باعث کرومائیٹ مقررہ قیمت پر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار بند ہوچکا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کان مالکان کو روزانہ کے حساب سے لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے بلکہ پچاس ہزار کے قریب مزدور جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں بھی بے روزگار ہوچکے ہیں لہذا اسمبلی کی معمول کی کارروائی روک کر اس مسئلے کو زیر بحث لایا جائے۔

تحریک التواء کی وضاحت پیش کرتے ہوئے سردارعبدالرحمن کھیتران نے کہاکہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے لوگ پہاڑوں پر چلے گئے دہشت گردی بڑھی ہے اورآزادی کی تحریک جیسی چیزیں ہمارے سامنے آئی ہیں چھ ماہ سے کانکن ڈائنامائیٹ نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگار ہیں چند کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری بناکر ڈائنامائیٹ کے ریٹ انتہائی بڑھادیئے ہیں صوبے میں بے روزگاری کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معاملے کو زیر غور لایا جائے اور جلد از جلد حل کیا جائے۔ 

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن لیاقت آغا نے کہا کہ میں نے اس مسئلے سے متعلق سوال بھی کیا تھا جس کا جواب غیر واضح ہے اوراس سے مطمئن نہیں ہوں وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ مسئلہ ایسا نہیں ہے ہم نے کمیٹی تشکیل دی ہوئی ہے جو وقتاً فوقتاً معیاد پوری ہونے کے بعد ڈائنامائیٹ سپلائی کرنے کی تجدید کرتی ہے لیکن گزشتہ سال جاری کئے گئے لائسنس کی تاحال تجدید نہیں کی گئی من پسند اور غیر متعلقہ شخص کو اختیاردیا گیا ہے کہ وہ ڈائنامائیٹ فروخت کرے جس نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے کانکن سو روپے فی کلو ملنے والی ڈائنامائیٹ پانچ سو روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔

اگر ہم 2000ٹن کرومائیٹ برآمد کرتے ہیں تو اس سے اڑھائی لاکھ ڈالر کا منافع ملک کے خزانے میں آتا ہے لوگوں کے ذاتی مفادات کی وجہ سے صنعت کو تباہ نہیں کرناچاہئے۔سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کا موقف تحریک التواء پر ایک جیسا ہے لہذا اسے بحث کیلئے منظور کیاجانا چاہئے حکومت اس پر بحث کرنے کیلئے تیار ہے ۔

صوبائی وزیر کھیل میر مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ ڈائنامائیٹ کے لائسنس محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری ہوتے ہیں اس معاملے کو حل ہونا چاہئے جس پر اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے تحریک التواء اسمبلی کے اجلاس میں بحث کیلئے منظورکرلی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و ڈپٹی اپوزیشن لیڈر زمرک خان اچکزئی نے اپنی تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی سے بلو چستان کیلئے مختص کردہ ملازمتوں کے کوٹے پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے اب ملک کے دیگر صوبوں کے لوگ غیرقانونی طریقے سے جعلی ڈومیسائل حاصل کرکے صوبے کی ملازمتوں پرتعینات ہورہے ہیں جوکہ صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے لہذا اسمبلی کی معمول کی کارروائی روک کر اس مسئلے کو زیربحث لایا جائے۔ 

انہوں نے اپنی تحریک کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان رقبے اور ساحل و وسائل کے لہذا سے بڑا صوبہ ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان پاکستان کو چلا رہا ہے ساحل ووسائل کا اختیار صوبے کے پاس ہوناچاہئے 18ویں ترمیم میں جو اختیارات آئے اس میں ہمیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ملا وفاق تب مضبوط ہوگا جب صوبے مضبوط ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہے صوبے کی تعلیمی حالت کا سب کومعلوم ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہر کے صوبوں سے آنے والے لوگ جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ بناکر ہمارے بچوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ہمارے مقامی افسران ملوث نہیں بیورو کریسی کے جو لوگ باہرسے آتے ہیں وہی اس طرح کے غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ اس فوری نوعیت کے مسئلے کو زیربحث لاکر اسکا حل تلاش کرنا چاہئے جس پر اسپیکرراحیلہ حمید خان د رانی نے ایوان کو آگاہ کیا کہ اجلاس میں پہلے ہی ایک تحریک التواء منظور ہوچکی ہے لہذا دوسری تحریک التواء بحث کیلئے منظور نہیں کی جاسکتی اس تحریک کو 16ستمبر کے اجلاس میں ان آرڈر رکھا جائے گا۔

اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کی رکن ثمینہ خان نے صوبے میں سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ کے رویئے کے حوالے سے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ کا رویہ اپنے شاگردوں کے ساتھ مثالی نہیں ہے اکثر اوقات اساتذہ اپنے شاگردوں پر ذہنی اور جسمانی تشدد کرتے ہیں جس کے باعث کئی طلبہ و طالبات کی اموات و معذوری کے واقعات متواتر رونما ہوتے ہیں جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرنے سے کتراتے ہیں ۔

لہذا ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرے کہ وہ سرکاری اسکولوں میں طلباء و طالبات پر اساتذہ کی جانب سے کئے جانے والے تشدد کی بابت ضابطہ کار واضع کرے اور ساتھ ہی اس بابت اساتذہ کی تربیت کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ سرکاری سکولوں میں طلباء و طالبات پر جسمانی و ذہنی تشدد کی روک تھام ہوسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے قرار داد کی محرک ثمینہ خان نے کہا کہ چار سال سے تعلیمی سسٹم کی بہتری اور سرکاری و پرائیوٹ اسکولوں میں یکساں نظام لانے کی بات کی جارہی ہے لیکن اساتذہ کے رویئے کی وجہ سے بچوں کی شخصیت تباہ ہورہی ہے اسکول ،کالج تو دور یونیورسٹی کے اساتذہ کا رویہ بھی انتہائی نامناسب ہے میں خود اس نامناسب رویئے کا شکارہوچکی ہوں خواتین طالبات کی جس طرح امتحانی مراکز میں چیکنگ کی جاتی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے ذہنی اور جسمانی تشدد سے تعلیمی نظام کمزور ہورہا ہے جس کی وجہ سے صوبہ ترقی نہیں کر رہا ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن مجید خان اچکزئی نے کہا کہ ساڑھے چار سال سے تعلیم کی بہتری کی بات کی جارہی ہے صوبے میں چالیس سال سے ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا جاسکا تو اصلاحات کیسے ہونگی تعلیمی کمیشن ایک قرار داد سے بنایا جاسکتا ہے دیگر صوبوں میں تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد وہاں تعلیمی نظام میں بہتری واقع ہوئی ہے اسوقت خیبر پختونخوا تعلیمی نظام میں پہلے نمبر پرہے کیونکہ وہاں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ صحت اور تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کرتے ہمارے ہاں صرف بجٹ کو چار فیصد سے بڑھاکر 24فیصد کیاگیا ہے اور عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں۔

صوبے میں اساتذہ کیلئے سکولوں کے ساتھ رہائش گاہیں نہیں ہیں مجبوراً وہ ملک ،سردار،خان کے پاس رہتے ہیں اور کچھ عرصے بعد چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اوراپنی آدھی تنخواہیں علاقے کی با اثرشخصیات کے حوالے کردیتے ہیں ۔

نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ سرکاری اسکولوں میں ڈنڈے کا استعمال عام ہے جس کی وجہ سے بچے اسکول جانے سے کتراتے ہیں پرائیویٹ اسکولوں میں بھی مار پیٹ اور بچوں کو ہراساں کیاجارہا ہے لہذا پرائیویٹ اسکولوں کو بھی قرارداد میں شامل کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ میری گھریلو ملازمہ کا ہاتھ ایک پرائیویٹ اسکول کے ٹیچر نے تشدد کرکے توڑ دیا حکومت آخر کب تک کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہے گی ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم وال نے کہا کہ قوانین کے مطابق قرار داد کے محرک کو یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ واقع کہاں پیش آیا کس اسکول میں ہوا تاکہ حکومت اس پر عملدرآمد کرسکے ایسے نہیں ہوسکتا کہ غیر واضح بات اور جنرل باتوں پر قرار داد لائی جاسکے ہم نے صوبے میں اساتذہ کی ٹریننگ کیلئے سینٹرز قائم کئے ہیں جہاں مارچ سے ابتک 6ہزار اساتذہ کو ٹریننگ دی جاچکی ہے جبکہ سال کے آخر تک 12ہزار اساتذہ کو ٹریننگ مکمل کرائی جائے گی ۔

قرار داد کی محرک ثمینہ خان نے کہا کہ یہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بات ہے جس پر مجموعی بحث ہونی چاہئے میں صوبائی و زیر تعلیم کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوں جس کے بعد قائد ایوان وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ میں قرار داد کی محرک ثمینہ خان سے درخواست کرتا ہوں چونکہ ہم اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں لہذا وہ اپنی قرار داد پر زور نہ دیں ۔

محرک ثمینہ خان نے اپنی قرار داد پر زورنہیں دیا جس کے بعد اجلاس کی صدارت کرنے والی پینل آف چیئرپرسن کی رکن شاہدہ روف نے قرار داد نمٹانے کی رولنگ دی۔ اجلاس میں مسلم لیگ(ن) کی رکن اسمبلی ثمینہ خان نے اپنی قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزراء ،ارکان ا سمبلی اور سرکاری افسران کو اکثر سرکاری و نجی دوروں اور علاج معالجہ کی غرض سے کراچی جانا پڑتا ہے جبکہ بلوچستان ہاؤس کراچی میں چار کمرے ہونے کی بناء پر انہیں رہائش اور ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں سخت تکالیف و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سیکورٹی صورتحال کے پیش نظر وہ مجبوراً مہنگے ہوٹلوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں جس کا حکومتی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے ۔

لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبائی وزراء ،ارکان اسمبلی اور سرکاری افسران کو درپیش مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر بلوچستان ہاؤس اسلام آباد کی طرز پر کراچی میں ایک بڑے بلوچستان ہاؤس کی تعمیر کو یقینی بنائے۔

انہوں نے اپنی قرار داد کی موزونیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اکثر ارکان اسمبلی کو میڈیکل وجوہات یا نجی کاموں کی وجہ سے کراچی جانا پڑتا ہے لیکن بلوچستان ہاؤس کراچی میں جگہ نہیں ملتی لہذا بلوچستان ہاؤس کراچی میں توسیع کی جائے یا اسکے ساتھ موجود پلاٹ پر نئی تعمیرات کی جائیں اور ارکان کو ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کی جائے۔ 

اجلاس نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔اجلاس میں ارکان سپوزمئی اچکزئی ،عارفہ صدیق کی مشترکہ قرار داد رکن اسمبلی نصراللہ زیرے نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان وفاقی حکومت کی جانب سے پیاز کی درآمد کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے چونکہ ہمارے صوبے کے مختلف علاقوں کی پیاز کی پیداوار بہتر ہوئی ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت بھی اچھی ہے مگر وفاقی حکومت کی جانب سے پیاز کی درآمد کا فیصلہ ہمارے صوبے کے عوام کا معاشی قتل کے مترادف ہے ۔

لہذا ہمارے صوبے کے پیاز کی فصل کو یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے مناسب قیمت پر خریدا جائے اور ساتھ ہی اسکو عام مارکیٹ میں لایا جائے تاکہ ہمارے صوبے کے زمیندار اپنی پیاز کی فصل سے مستفید ہوسکیں یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کے زمینداروں کے مفاد میں پیاز کی درآمد کے فیصلے کو روکا جائے تاکہ صوبے کے زمینداروں میں پائی جانے والی تشویش و احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے ۔

قرارداد کی موزونیت پر اظہارخیال کرتے ہوئے سید لیاقت آغا نے کہا کہ میں نے پیاز کی درآمد کے مسئلے پر جو توجہ دلاؤ نوٹس جمع کرایا تھا متعلقہ محکمے کی جانب سے جو جواب موصول ہوا وہ انتہائی تشویشناک ہے جواب میں کہا گیا ہے کہ دیگر ممالک سے برآمد کرنے کے بعد ملکی پیاز کی قیمت نیچے آئی ہے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی بلوچستان میں اچھی فصل ہوتی ہے اور پنجاب کو نقصان ہورہا ہوتا ہے وفاق پنجاب کے مفاد کومد نظر رکھتے ہوئے درآمد کی منظوری دیدیتا ہے میڈیا اور وفاقی حکومت پنجاب کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں شوگر ملوں،کپاس ،کینو ،آم اور دیگر چیزوں پر سبسڈی دی جارہی ہے تو بلوچستان میں بھی سبسڈی دی جاسکتی ہے وفاق تمام صوبوں کو ایک نظر سے دیکھے اگر یوٹیلٹی اسٹور کا خسارہ اتنا زیادہ ہے تو اگر بلوچستان کے 90کروڑ اس میں مزید ڈال دیئے جائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وزیراعلیٰ بلوچستان سے استدعا ہے کہ وہ اس مسئلے کو ذاتی دلچسپی اور ترجیحی بنیادوں پر لیں ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن مجید خان اچکزئی نے کہا کہ صوبے کے 80فیصد افراد کا انحصار زراعت پر ہے لیکن بجٹ میں ہماری ترجیح کچھ اور ہیں محکمہ زراعت کے 19ہزارملازمین کے پاس ایک منصوبہ نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم امریکہ سے پی ایچ ڈی کرکے آئے ہیں انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ ایک ایکڑ پر سیب کے کتنے درخت لگائے جاسکتے ہیں محکمہ زراعت کو صوبے کے کاشتکاروں کیلئے نئی منڈیا ں تلاش کرنی چاہئیں زمیندار قرض لیکرکاشت کاری کر رہے ہیں ۔

محکمہ زراعت نے جو بلڈوزر خریدے وہ خریداری کے بعد چلے ہی نہیں صوبے کی زراعت کو تباہی کے دہانے پرلاکھڑا کردیا گیا ہے اس مسئلے پر ایک مکمل میکنزم ہونا چاہئے نیشنل پارٹی کے رکن میرخالدلانگو نے کہا کہ یہ انتہائی اہمیت کی حامل قرارداد ہے وفاقی حکومت کی جانب سے پیاز کی درآمد کی اجازت سے ز مینداروں کو نقصان ہوا ہے صوبے کے زمیندار اس سال خوش تھے کہ فصل اچھی ہوئی ہے اسکی قیمت بھی اچھی مل رہی تھی لیکن درآمد سے ہمیں نقصان ہورہا ہے ۔

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ صوبے کے زمیندار مشکلات کا شکار ہیں یہ قرار داد بہت اہم مسئلے پر لائی گئی ہے زراعت بلوچستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس قرارداد کو پورے ایوان کی جانب سے منظور کیا جائے۔ 

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارت وال نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر کمیٹی بناچکے ہیں قائد ایوان سے گزارش ہے کہ وہ کمیٹی کے ہمراہ اسلام آباد جائیں اورقرارداد پرعملدرآمد کا جائزہ لیں اوراس میں پیش رفت کیلئے اقدامات کرائیں زمینداروں کو پیاز کی ایسی قیمت ملنی چاہئے کہ انکا نقصان نہ ہواورایک ایسا واضح طریقہ کار ہونا چاہئے جس میں پیاز کا ریٹ فکس ہو ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ آج ہی مسئلے پر وفاق سے بات کریں گے جس کے بعد چیئرپرسن شاہدہ روف نے قرارداد کو پہلے سے قائم کمیٹی کوریفر اور پورے ایوان کی جانب سے منظور کرنے کی رولنگ دی اور وزیراعلیٰ سے سفارش کی کہ وہ اس مسئلے کو ہنگامی طورپردیکھیں جس کے بعد انہوں نے اسمبلی اجلاس 16ستمبر کی سہ پہر چار بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔